بہار میں خفیہ NRC؟ اویسی کا انتخابی کمیشن پر سنگین الزام
انتخابی کمیشن بہار میں خفیہ NRC نافذ کر رہا ہے، لاکھوں شہری ووٹنگ کے حق سے ہو سکتے ہیںمحروم ۔اویسی کاالزام
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے صدر اسد الدین اویسی نے الزام عائد کیا ہے کہ الکشن کمیشن بہار میں آئندہ ریاستی انتخابات سے قبل خفیہ طریقے سے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) نافذ کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں لاکھوں غریب اور مستحق ہندوستانی شہری ووٹنگ کے بنیادی حق سے محروم ہو سکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ کمیشن کے طریقہ کارسے عوام کے اعتمادکوٹھیس پہنچے گیاویسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا:
’’الیکشن کمیشن بہار میں پچھلے دروازے سے NRC نافذ کر رہا ہے۔ ووٹر لسٹ میں اندراج کے لیے اب ہر شہری کو نہ صرف اپنی بلکہ اپنے والدین کی جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش کے دستاویزی ثبوت پیش کرنے ہوں گے۔ جبکہ صرف تین چوتھائی پیدائشیں ہی رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ سرکاری دستاویزات میں غلطیوں کی بھرمار ہے۔ سیمانچل جیسے سیلاب زدہ علاقوں کے لوگ جو ملک کے غریب ترین طبقات میں شمار ہوتے ہیں، بمشکل دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر پاتے ہیں۔ ان سے توقع رکھنا کہ وہ اپنے والدین کے دستاویزات سنبھال کر رکھیں، ایک ظالمانہ مذاق ہے۔‘‘اویسی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 1995 میں ایسی مشقوں پر سخت سوالات اٹھائے تھے۔
’’اس مشق کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بہار کے غریب طبقے کی ایک بڑی تعداد ووٹر لسٹ سے نکال دی جائے گی۔ ووٹر لسٹ میں شامل ہونا ہر ہندوستانی شہری کا آئینی حق ہے۔ سپریم کورٹ نے 1995 میں ایسے غیر منصفانہ عمل پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ انتخابات سے کچھ ہی وقت پہلے ایسے اقدامات سے لوگوں کا انتخابی کمیشن پر اعتماد مزید کمزور ہوگا۔‘‘
اویسی نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح مختلف ادوار میں پیدا ہونے والوں کے لیے دستاویزات کی شرائط الگ الگ رکھی گئی ہیں:
اگر کوئی شہری جولائی 1987 سے پہلے پیدا ہوا ہے، تو اسے 11 میں سے کوئی ایک قابل قبول دستاویز فراہم کرنی ہوگی جو تاریخ / یا جائے پیدائش ظاہر کرے۔
اگر کوئی شہری 01 جولائی 1987 اور 02 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہوا ہے، تو اسے اپنی تاریخ و جائے پیدائش کے ساتھ ساتھ والدین میں سے کسی ایک کی پیدائش کا ثبوت بھی دینا ہوگا۔
اگر کوئی 02 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہوا ہے، تو اسے اپنی اور دونوں والدین کی پیدائش کی تاریخ و جگہ کے ثبوت پیش کرنا ہوں گے۔
اگر والدین میں سے کوئی ہندوستانی شہری نہ ہو تو اس وقت کے ویزا اور پاسپورٹ کی کاپی بھی دینی ہوگی۔
اویسی نے کہا کہ الیکشن کمیشن بہار میں گھر گھر جا کر ووٹر ویری فکیشن کا عمل ایک ماہ (جون۔جولائی) کے اندر مکمل کرنا چاہتا ہے، جو کہ ایک غریب، پسماندہ ریاست کے لیے ناقابل عمل ہے۔
انہوں نے 1995 کے لال بابو حسین کیس کا حوالہ دیا، جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ:
پہلے سے ووٹر لسٹ میں شامل شہری کو بغیر نوٹس اور قانونی عمل کے فہرست سے نہیں نکالا جا سکتا۔
کسی فرد کو غیر ملکی قرار دینے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ہے۔
شہریت کا تعین صرف چند مخصوص دستاویزات سے نہیں کیا جا سکتا بلکہ ہر ممکنہ قسم کے شواہد کو قبول کیا جانا چاہیے۔
اویسی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی یہ مشق ایک متوازی NRC جیسی شکل اختیار کر چکی ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں کو ہوگا جو پہلے ہی معاشرتی و معاشی لحاظ سے پسماندہ ہیں۔
فی الحال بہار اسمبلی انتخابات کی سرکاری تاریخ کا اعلان نہیں ہوا ہے، لیکن امکان ہے کہ یہ انتخابات اکتوبر یا نومبر 2025 میں ہوں گے۔
ہماچل میں مانسون نے تباہی مچا دی، 31 افراد ہلاک، 5 مکانات منہدم
شملہ: ہماچل پردیش میں مانسون کے ایک ہفتے کے اندر جان و مال کا نقصان ہوا ہے۔ ریاست میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مجموعی طور پر 31 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اس میں سڑک حادثات اور دیگر وجوہات سے ہونے والی اموات بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب سیلاب میں 6 افراد ہلاک جب کہ 5 لاپتہ ہیں۔ اس مدت کے دوران ریاست کو مجموعی طور پر 29 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
دراصل، ہماچل پردیش میں فعال مانسون نے پچھلے سات دنوں میں زبردست تباہی مچائی ہے۔ جمعہ کی شام تک کی رپورٹ اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (SDMA) نے جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بارش سے متعلق مختلف واقعات میں 31 افراد کی موت ہو چکی ہے، جب کہ 66 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران 4 افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ہے۔شدید بارش کی وجہ سے کنکریٹ کے 5 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 7 دکانیں اور 8 مویشیوں کے شیڈ بھی گر گئے ہیں۔ 8 دیگر مکانات کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ مانسون کا اثر ریاست کے بنیادی ڈھانچے پر صاف نظر آرہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی 53 سڑکیں جمعہ کی شام تک بند ہیں، جس کی وجہ سے نقل و حرکت متاثر ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ 135 الیکٹرک ٹرانسفارمر بند ہونے سے کئی علاقوں میں بجلی کی سپلائی ٹھپ ہوگئی ہے۔ مون سون کی اس تباہی کی زد میں 147 واٹر سپلائی سکیمیں بھی آگئی ہیں جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں پینے کے پانی کا بحران گہرا ہوگیا ہے۔سڑک حادثات میں گزشتہ سات دنوں میں 17 اموات
سڑک حادثات میں گزشتہ سات دنوں میں 17 اموات
گزشتہ سات دنوں میں سب سے زیادہ اموات کانگڑا ضلع میں ہوئی ہیں۔ دھرم شالا کے خانیار میں سیلاب میں چھ لوگوں کی موت ہو گئی ہے، جب کہ دو لوگ لاپتہ ہیں۔ ساتھ ہی یہاں ڈوبنے سے دو لوگوں کی موت بھی ہوئی ہے۔ ضلع میں کل 9 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ منڈی اور شملہ میں چٹان سے گرنے سے ایک ایک شخص کی موت ہوئی ہے۔ اسی طرح بلاس پور میں سانپ کے ڈسنے سے ایک شخص جان کی بازی ہار گیا۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے ریاست بھر میں سڑک حادثات میں گزشتہ سات دنوں میں 17 اموات کی رپورٹ شیئر کی ہے۔مون سون کے موسم کے بارے میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سیاح اور دیہاتی اونچائی والے علاقوں میں ندیوں کے کناروں کے قریب لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس سے حادثات ہوتے ہیں۔ شہری علاقوں میں نقصان کا امکان کم ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ تمام سڑکیں اور سیاحتی مقامات سیاحوں کے لیے کھلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے راحت اور بچاؤ کاموں کو تیز کرنے کی ہدایات دی ہیں، جب کہ آفات سے متاثرہ علاقوں میں بحالی اور بنیادی خدمات کی بحالی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
’یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘: ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے بعد بی بی سی نے تہران میں کیا دیکھا؟
شدید گرم دوپہر میں ایران کے دارالحکومت تہران کے دل میں واقع ایک کیفے کے اندر گاہکوں کو ٹھنڈے مشروب پلائے جا رہے ہیں۔
یہ یہاں دستیاب سب سے زیادہ مشہور آئس امریکانو کافی ہے۔ یہ کیفے برسوں سے بند امریکی سفارتخانے کے ایک کونے میں واقع ہے۔
سیمنٹ سے تعمیر کی گئی اس کی بلند دیواروں پر امریکہ مخالف تصاویر بنی ہوئی ہیں۔ یہ تصاویر ان دیواروں پر تب سے ہی موجود ہیں جب سنہ 1979 میں ایرانی انقلاب کے موقع پر امریکی سفارتخانے کے عملے کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اس واقعے کے بعد آج تک ایران اور امریکہ کے بیچ تعلقات خراب رہے ہیں۔
اس کیفے میں ملازمت کرنے والے ویٹر عامر کہتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر ہو جائیں۔ایک گلاس میں کافی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’امریکی پابندیوں نے ہمارے کاروبار کو نقصان پہنچایا ہے اور ہمارے لیے دنیا میں سفر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔‘
ایران، اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ سے متعلق خبریں اب آپ کے فون پر: اس کیفے میں صرف دو ہی میزوں پر لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک میز پر سیاح برقعے میں ملبوس ایک خاتون بیٹھی ہیں جبکہ دوسری میز پر بلیو جینز میں ملبوس ایک خاتون اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بیٹھی ہیں۔
یہ ایرانی دارالحکومت کے ایک چھوٹے سے حصے کی منظر کشی ہے جس کا مستقبل بے یقینی سے دوچار ہے۔اسی مقام سے کچھ ہی دور ایران کے سرکاری میڈیا کی عمارتیں موجود ہیں جہاں سے جمعرات کو رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کا ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان چلایا گیا تھا۔
انھوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’امریکی ابتدا سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالف رہیں گے۔‘
ایرانی رہبرِ اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ’معاملہ اصل میں یہ ہے کہ: وہ ہم سے سرینڈر چاہتے ہیں۔‘
کہا جاتا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد آیت اللہ علی خامنہ ای نے کسی خفیہ بنکر میں پناہ لے لی تھی۔
منگل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ بندی کے اعلان کے بعد ہم نے ایرانی رہبرِ اعلیٰ کی تقریر ایران کے سرکاری ٹی وی چینل کے دفتر میں ایک چھوٹے سے ٹی وی پر دیکھی تھی۔جنگ کے دوران اسرائیل نے عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا تھا اور اب وہاں کچھ عمارتوں کی جگہ صرف سٹیل کا ڈھانچہ نظر آ رہا تھا۔
جب اسرائیل نے 16 جون کو آئی آر آئی بی میڈیا کمپلیکس کو نشانہ بنایا تو اس وقت وہاں مرکزی سٹوڈیو میں بھی آگ لگ گئی تھی۔ شاید اس سٹوڈیو سے ہی آیت اللہ خامنہ ای کی تقریر نشر کی جانی تھی لیکن اب اس سٹوڈیو میں صرف راکھ رہ گئی تھی۔
اس مقام پر اب عجیب سی بو پھیلی ہوئی ہے، سب ساز و سامان جیسے کہ کیمرے، لائٹس اور ٹرائپوڈز جل چکے ہیں۔ فلور پر دور دور تک شیشے کے ٹکڑے پھیلے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کا اس وقت کہنا تھا کہ انھوں نے ایران کی پروپیگنڈا مشین کو نشانہ بنایا ہے جو کہ عسکری کاموں کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔ تاہم ایران صحافی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
سرکاری ٹی وی سٹیشن میں نظر آنے والا منظر ایران کے ایک سیاہ دور کی یاد دلاتا ہے۔
'مجھے ڈر ہے اسرائیل دوبارہ حملہ کرے گا'
اس سیاہ دور کا ایک عکس آپ کو تہران کے ہسپتالوں میں بھی نظر آتا ہے جہاں 12 دن جاری رہنے والی جنگ کے زخمی اب بھی زیرِ علاج ہیں۔
تہران کے طلقانی جنرل ہسپتال کے محکمہ ایمرجنسی میں میری ملاقات اشرف بارغی نامی ہیڈ نرس میں ہوئی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’مجھے ڈر ہے کہ وہ (اسرائیل) دوبارہ حملہ کرے گا۔‘
’ہمیں اس بات پر یقین نہیں ہے کہ یہ جنگ اب ختم ہو چکی ہے۔‘
جب اسرائیل نے 23 جون کو اوین جیل پر حملہ کیا تھا تو وہاں زخمی ہونے والے فوجی اہلکاروں اور عام شہریوں کو اشرف بارغی کے محکمہ ایمرجنسی میں ہی طبی امداد دینے کے لیے لایا گیا تھا۔
ہیڈ نرس کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے 32 سالہ کیریئر میں اتنے گہرے زخم نہیں دیکھے تھے۔‘اوین ایک بدنام زمانہ جیل ہے جہاں سیاسی قیدی بھی قید ہیں۔ اس جیل پر حملہ بظاہر اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کا ایرانی عوام کو ایک پیغام ہی لگ رہا تھا کہ ’اپنی آزادی کے لیے اُٹھ کھڑے ہو۔‘
طلقانی ہسپتال کے ایک بیڈ پر اوین جیل میں ملازمت کرنے والے مرتضیٰ بھی موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے صرف فوج اور جوہری مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ لیکن یہ سب جھوٹ ہے۔‘
جب اسرائیلی میزائل اوین جیل کی عمارت سے ٹکرایا تو مرتضی وہاں شعبہ ٹرانسپورٹ میں اپنے کام میں مشغول تھے۔ انھوں نے ہمیں اپنے دونوں ہاتھوں اور کمر پر آنے والے زخم بھی دکھائے۔
اس سے اگلے ہی وارڈ میں ایرانی فوجی اہلکار زیرِ علاج تھے لیکن ہمیں اس وارڈ میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔
دور تک پھیلے ہوئے اس ایرانی دارالحکومت میں اب بھی ایرانی شہری اس جنگ کی قیمت کے بارے میں سوچ بچار کر ہے ہیں۔ ایران کی وزارتِ صحت کے مطابق اس جنگ میں 627 افراد ہلاک اور تقریباً 5000 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ایرانی حکمرانوں کے ناقد اور حامی دونوں ملک کے مستقبل کے لیے فکرمند
تہران میں بظاہر آہستہ ہی سہی لیکن زندگی معمول پر آ رہی ہے۔ یہاں سڑکوں پر ایک مرتبہ پھر ٹریفک نظر آنے لگا ہے۔
جنگ کے دوران بمباری کے سبب تہران چھوڑنے والے شہری بھی واپس اب تہران آ رہے ہیں اور یہاں بازار بھی دوبارہ کُھلنے لگے ہیں۔
جنگ کے دوران بمباری کو یاد کرتے ہوئے نوجوان خاتون مینا کہتی ہیں کہ ’وہ اچھے دن نہیں تھے، ہمارے دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔‘
’ہم نے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کی ہے لیکن اب ہمیں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔‘میری ان سے ملاقات تہران کے مشہور زمانہ آزادی ٹاور پر ہوئی تھی۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں تہران سمفونی آرکیسٹرا میں ملّی نغمے سننے جمع ہوئی تھی۔
اس کنسرٹ کو منعقد کرنے کا مقصد شہر میں پُرسکون فضا کو بحال کرنا تھا۔
یہاں پر ایران کے مذہبی حکمرانوں کے حامی اور مخالف دونوں ہی ایک ساتھ موجود تھے اور مشترکہ طور پر ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچ کر فکر مند تھے۔
جب میں نے علی رضا نامی ایک شہری سے پوچھا کہ وہ اپنی حکومت کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے تو انھوں نے کہا کہ ’انھیں عوام کی بات سننا پڑے گی۔ میں بس یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمیں زیادہ آزادیاں چاہییں۔‘
یہاں ہمیں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے جذبات بھی سُننے کو ملے۔ 18 سالہ حمید کہتے ہیں کہ ’ہماری جوہری تنصیبات پر صرف اس لیے حملہ کرنا تاکہ ہم آپ کے کہہ پر عمل کر سکیں یہ بات سفارکاری کے اصولوں کے خلاف ہے۔‘
ایران کے عوام دہائیوں سے پابندیاں اور اصولوں تلے زندگیاں گزار رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی یہاں لوگ اپنے دل کی بات کہہ ہی دیتے ہیں۔ اب انھیں انتظار ہے کہ ان کے اپنے ایرانی حکمران اور واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے مغربی رہنماؤں کے آئندہ اقدامات کیا ہوں گے۔
ان ہی رہنماؤں اور حکمرانوں کے فیصلے ایرانی عوام کی زندگیوں پر اثر انداز ہوں گے۔