ہندوستان-بنگلہ دیش سرحدی کشیدگی میں اضافہ
ہندوستان۔بنگلہ دیش سرحدی تنازع: غیر قانونی ہجرت پر سیاسی اور سفارتی بحران شدت اختیار کرگیا
ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان غیر قانونی مہاجرین کے مسئلے پر پائی جانے والی بے چینی حالیہ ہفتوں میں شدت اختیار کر گئی ہے، کیونکہ نئی دہلی نے سرحد کے ساتھ غیر مجاز افراد کی شناخت اور ان کی ملک بدری کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ہندوستان ان کارروائیوں کو سلامتی اور آبادی کے توازن کے تحفظ کے لیے ضروری اقدام قرار دے رہا ہے، جب کہ ڈھاکہ ان اقدامات کو جبر اور انسانی مسئلے کی سیاست کاری کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
ہندوستان کے حالیہ ’پُش بیک‘ اقدامات صرف غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری نہیں، بلکہ ایک سخت گیر سرحدی پالیسی کی نشاندہی کرتے ہیں، جو داخلی عدم تحفظ، انتخابی مجبوریوں اور قومی سلامتی کے مفادات سے جڑی ہوئی ہے۔ دوسری جانب، بنگلہ دیش کے لیے یہ صورتحال نہایت پریشان کن ہے، اور ڈھاکہ میں یہ بیانیہ ابھر رہا ہے کہ ہندوستان یہ اقدامات زبردستی اور سفارتی روایات کے منافی انداز میں کر رہا ہے۔
اس وقت جب دونوں ملکوں کے درمیان کوئی باقاعدہ، شفاف اور قابل تصدیق واپسی کا نظام موجود نہیں، اس تناؤ میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔
ہجرت اور بداعتمادی کی تاریخی بنیاد:
1947 میں تقسیم ہند کے بعد، مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) سے ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں، خصوصاً آسام اور مغربی بنگال میں غیر قانونی ہجرت کے مختلف ادوار نے ان علاقوں کی آبادیاتی ساخت کو بدل کر رکھ دیا۔ 1971 کی جنگِ آزادی بنگلہ دیش کے بعد، مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ہندوستان میںداخل ہوئی، جن میں سے کئی کے پاس شناختی دستاویزات نہیں تھیں۔ یہ مسئلہ آج بھی حل طلب ہے، اور ہندوستان میں غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجرین کی تعداد لاکھوں سے کروڑوں تک بتائی جاتی ہے،اگرچہ یہ اعداد و شمار متنازع اور اختلافی ہیں۔
آسام کا NRC اور شہریت کامسئلہ:
2019 میں آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) کے اپڈیٹ کے نتیجے میں 19 لاکھ سے زائد افراد کو شہری فہرست سے باہر کر دیا گیا۔ ان میں اکثریت وہ لوگ تھے جو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے مناسب دستاویزات فراہم نہ کر سکے، اور ان میں بڑی تعداد غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجرین کی بتائی جاتی ہے۔ NRC کی اس کارروائی نے نہ صرف داخلی سطح پر کشیدگی بڑھائی بلکہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہوئے۔
بھارت کی نئی سرحدی پالیسی: سلامتی، خودمختاری اور جذبات:
مئی 2025 سے ہندوستان کی بارڈر سیکیورٹی فورس (BSF) نے ریاستی انٹیلیجنس اداروں کی مدد سے 1,413 غیر قانونی غیر ملکیوں کو بڑے سرحدی مقامات لال مونی ہاٹ، سلہٹ اور صنم گنج،کے ذریعے واپس بھیجا۔ یہ کارروائیاں 1946 کے “غیر ملکیوں کے ایکٹ” اور 1920 کے “پاسپورٹ ایکٹ” کے تحت کی جا رہی ہیں، جو غیر قانونی داخلے پر ملک بدرکرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
ان اقدامات کی بنیادی وجوہات تین ہیں:
آبادیاتی سلامتی ۔ شمال مشرقی ریاستوں میں وسائل پر دباؤ اور معاشرتی تناؤ میں اضافہ؛
قومی سلامتی۔ غیر قانونی مہاجرین کو شدت پسندی یا جرائم پیشہ گروہوں سے جوڑنے کا خدشہ؛
سیاسی دباؤ ۔ 2026 کے ریاستی انتخابات کے پیش نظر عوامی مطالبات کہ غیر قانونی ہجرت کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا جائے۔
ہندوستان کا موقف ہے کہ صرف وہی افراد واپس بھیجے جاتے ہیں جن کی بنگلہ دیشی شہریت کی تصدیق ہو چکی ہو۔یعنی جن کے پاس کوئی شناختی دستاویز، جائیداد، یا نسب کا ثبوت نہ ہو۔ ان کی بایومیٹرک معلومات محفوظ کی جاتی ہیں تاکہ کسی بے گناہ کی غلط ملک بدری نہ ہو۔
بنگلہ دیش کے اعتراضات اور سفارتی ردِعمل:
بنگلہ دیش کا موقف ہے کہ یہ اقدامات یکطرفہ ہیں اور “پش ان” یعنی زبردستی دھکیلا جا رہا ہے، جس میں کسی تصدیق یا مشاورت کا عمل شامل نہیں۔ ڈھاکہ کا یہ بھی الزام ہے کہ ہندوستان دراصل “مسلمان اقلیتوں” کو زبردستی بنگلہ دیش میں داخل کر رہا ہے۔جسے بھارت نے سختی سے مسترد کیا ہے۔
بنگلہ دیش نے کئی ایسے افراد کی واپسی سے بھی انکار کر دیا ہے جن کی شہریت ہندوستان کے مطابق تصدیق شدہ ہے۔ اس انکار نے BSF اور BGB (بارڈر گارڈ بنگلہ دیش) کے درمیان سرحدی تعاون کو متاثر کیا ہے۔ اس کی وجہ سیاسی دباؤ بھی ہے، جس نے 1972 کے دو طرفہ معاہدے، انڈیا۔بنگلہ دیش پروٹوکول کے تحت طے شدہ واپسی کے اصولوں کو معطل کر رکھا ہے۔
پس منظر**:**
1971 کے بعد کی بڑی ہجرتیں: ہندوستان کے کئی علاقوں میں مقامی و مہاجر آبادی کے درمیان تناؤ کا باعث بنیں؛
NRC جیسے اقدامات : غیر قانونی ہجرت سے نمٹنے کے لیے لیکن سماجی و سیاسی کشیدگی کا سبب بنے؛
سرحد پر سیاسی ہنگامہ : اب سفارتی رشتوں کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔
چین سے 750 کلومیٹر دور پھیلی خطرناک بیماری ، ایک لاکھ افراد کی ہوئی تھی موت ، 10 ہزار سے زیادہ کو پھر بنایا شکار
Mongolia Measles News: منگولیا میں خسرہ کی وباء بڑھ رہی ہے۔ نیشنل سینٹر فار کمیونیکیبل ڈیزیز (این سی سی ڈی) کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں خسرہ کے 232 نئے کیسز سامنے آئے ہیں جس سے ملک میں کیسز کی کل تعداد 10,065 ہوگئی ہے۔ اسی وقت، مزید 260 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں، جس سے صحت یاب ہونے والوں کی کل تعداد 8,405 ہو گئی ہے۔
این سی سی ڈی نے کہا کہ زیادہ تر نئے کیسز اسکول جانے والے بچے ہیں، جنہیں خسرہ کی ویکسین کی صرف ایک خوراک ملی تھی۔ اس صورتحال کے پیش نظر این سی سی ڈی نے خاندانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس سنگین بیماری سے بچانے کے لیے خسرہ کی ویکسین کی دونوں خوراکیں لگائیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق خسرہ ایک متعدی وائرل بیماری ہے، جو سانس، کھانسی یا چھینک کے ذریعے آسانی سے پھیلتی ہے۔ یہ موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
خسرہ بنیادی طور پر بچوں کو متاثر کرتا ہے لیکن جو بھی ویکسین نہیں لیتا یا جس کا مدافعتی نظام کمزور ہے وہ اس بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کی علامات میں تیز بخار، کھانسی، ناک بہنا اور پورے جسم میں دھبے شامل ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق خسرہ سے بچاؤ اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ ویکسینیشن ہے۔ یہ نہ صرف محفوظ ہے بلکہ وائرس سے لڑنے میں بھی مدد کرتا ہے۔
1963 میں خسرہ کی ویکسین متعارف ہونے سے پہلے ہر 2 سے 3 سال بعد بڑے پیمانے پر وبا پھیلتی تھی جس سے ہر سال تقریباً 26 لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے تھے۔ ایک محفوظ اور سستی ویکسین کی دستیابی کے باوجود، خسرہ کی وجہ سے 2023 میں تقریباً 1,07,500 اموات ہوئیں، جن میں سے زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے بچے تھے۔ منگولیا میں خسرہ کے کیسز خاص طور پر ان علاقوں میں زیادہ ہیں جہاں طبی نگہداشت کی سہولتیں کم ہیں ۔این سی سی ڈی نے خبردار کیا ہے کہ جن بچوں اور حاملہ خواتین کو اس بیماری کے خلاف ویکسین نہیں لگائی گئی ہے ان کے اس سے متاثر ہونے کا سب سے زیادہ امکان ہے۔ ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ ویکسینیشن مہم کو تیزی سے پھیلانا ہوگا۔
امریکی صدرکے دعوے حقیقت سے پرے،ایران نے کردی تردید
تہران:ایران نے امریکی صدر ٹرمپ کے ایران سے آئندہ ہفتے مذاکرات کے دعوے کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔۔ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایران کے سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتےہوئے ٹرمپ کے آئندہ ہفتے ایران سے مذاکرات کے دعوے کو مسترد کردیا۔عباس عراقچی نے کہا کہ واضح کردوں نئے مذاکرات شروع کرنے کے لیے کوئی معاہدہ، انتظام یا گفتگو نہیں ہوئی۔مذاکرات شروع کرنے کے لیے کوئی منصوبہ طے نہیں کیا گیا ہے۔
امریکی صدر نے کیا کہا تھا؟
نیٹو سمٹ کے دوران صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران اسرائیل تنازع اب ختم ہوچکا ہے، اب دونوں تھک چکے ہیں، دونوں جنگ کے خاتمے سے بہت مطمئن ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ایرانی جوہری تنصیبات کی تباہی کےجائزے میں صرف اسرائیلی انٹیلی جنس پر انحصار نہیں کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف دباؤ کی پالیسی جاری رکھیں گے۔امریکی صدر نے دعو ی کیا تھا کہ اگلے ہفتے ایران سے بات ہوگی اور معاہدے پر دستخط بھی ہوسکتے ہیں، میرے لیے معاہدہ ضروری نہیں، انہوں نے جنگ لڑ لی، اب واپس اپنی دنیا میں جا رہے ہیں، مجھے فرق نہیں پڑتا کہ معاہدہ ہو یا نہ ہو۔
دوسری جانب ایران کےوزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ معاہدے کی معطلی کا بل شوریٰ نگہبان سے منظوری کے بعد ہم پر لازم ہوگیا ہے۔ عباس عراقچی نے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ ہمارا تعلق اور تعاون ایک نئی شکل اختیار کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئی اے ای اے کے ساتھ معاہدے کی معطلی کابل شوریٰ نگہبان سے منظوری کے بعد ہم پر لازم ہوگیا، ہم اس بل کے پابند ہیں اور اس کے نفاذ میں کوئی شک نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ایرانی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد گزشتہ روز ایرانی شوریٰ نگہبان (Guardian Council) نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ ایران کے تعاون کو معطل کرنے کے پارلیمانی بل کی توثیق کردی تھی۔