Thursday, 27 February 2025

*🔴سیف نیوز اردو*




wednesday 30Th march 2022 ke daily MUMBAI URDU NEWS se ek story                                                                                                       
انسان کی زندگی کا سب سے اچھا دور بچپن کا ہوتاہے: سنیل یاؤلیکر
امراوتی کے معروف آرٹسٹ ، کوی اور ناول نگار سے ایک ملاقات

اسپیشل اسٹوری:فرحان حنیف وارثی
گزشتہ ہفتے جہانگیر آرٹ گیلری میں مہاراشٹر کے ضلع امراوتی کے مشہور آرٹسٹ سنیل یاؤلیکر کی گراں قدر پینٹنگس کو دیکھنے کا موقع دستیاب ہوا۔سیکولر آرٹ موؤمنٹ کے تحت ’ریولیوشن اینڈ کاؤنٹر ریولیوشن ‘ جیسے اہم موضوع پر ریاستی سطح کے متعدد آرٹسٹوں نے اس نمائش میں اپنے فن پاروں کو پیش کیا تھا، اور ان میں سنیل یاؤلیکر بھی ایک تھے۔ان کی پینٹنگس کا مرکز پچپن اور بچہ یا بچی تھا۔انھوں نے بتایا:’ میں نے بھی اپنے بچپن میں دیوار، زمین اور کاغذ کا استعمال کینوس کی حیثیت سے کیا تھا،یعنی دیگر بچوں کی طرح ہی پینٹنگس کا آغاز کیا تھااور اپنے گھر کی دیواروں ، زمینوں اور کاغذوں کو خراب کیا تھا،لیکن میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ میںبڑا ہو کر پینٹر یا آرٹسٹ بنوں گا۔تعجب خیز بات یہ ہے کہ میں بنیادی طور پر ٹیچر ہوں ، مگر آرٹ کا ٹیچر نہیں ہوں۔‘ وہ آگے بتاتے ہیں:’ آرٹ کی تعلیم سے کوئی سروکار نہیں رہا۔بس اپنے احساسات کو آرٹ کی شکل میں پیش کرنے کی للک تھی ، سو میں نے آرٹسٹ کے طور پر اپنے آپ کو سمجھنے اور دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی ۔ بالکل اسی طرح کویتااور ناول کا راستہ بھی چُنا۔اپنے احساسات کو پیش کرنے کے کئی میڈیم ہیں اور مجھے ان میں آرٹ اور رائٹنگ کا میڈیم بہتر لگا۔‘
سنیل یاؤلیکر نے ۳۱؍ سال کی عمر میں پینٹنگس کی جانب توجہ مرکوز کی ۔ان کا نہ کوئی استاد ہے ،اور نہ ہی کوئی شاگرد۔اپنی کلا سےوہ اب بھی مطمئن نہیں ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ ان کی بہترین پینٹنگس ابھی کینوس پر آنا باقی ہے۔پبلوپکاسو کی شہرہ ٔ آفاق پینٹنگس ’ غرنیکا‘ کو وہ پسند کرتے ہیں ۔اسی طرح ہالینڈ کے آرٹسٹ ریمبرانٹ بھی انھیں عزیز ہیں۔ہندوستانی آرٹسٹوں میں مقبول فدا حسین کے وہ شیدائی ہیں۔اس نمائش میں پیش کی گئی پینٹنگس کے بارے میں انھوں نے بتایا:’ انسان کی زندگی کا سب سے اچھا دور بچپن کا ہوتا ہے ۔اس عمر میں ہر کوئی معصوم ہوتا ہے ۔سنت تکا رام کا کہنا تھا کہ میں جس ماں کے پیٹ سے نکلا ہوں ، واپس اسی میں جانے کی تمنا ہے۔مجھے خودکشی نہیں کرنا ہے ۔یہ دنیا اتنی خراب ہوچکی ہے کہ مجھے یہاں رہنے کی تمنا نہیں ہے۔‘ ان کی نمائش میں جو پینٹنگس سجائی گئی ہیں ان میں بچوں کی خوبصورت دنیا اور ان کی شرارتوں کو رنگوں سے پینٹ کیا گیا ہے۔انھوں نے اڑیسہ کے فادر گراہم اسٹینس کے مرڈر،کسانوں کی خودکشی، گودھرا کے دنگوں،عراق کی جنگ اور خواتین پر ہونے والے مظالم کو بھی اپنی پینٹنگس کا موضوع بنایا ہے۔کسانوں کی خودکشی کی پینٹنگ کو Loss Dreamعنوان دیاہے۔انھوں نے شادی شدہ خاتون کی پیشانی پر لگائے جانے والے کُم کُم کوبھی ہدف تنقید بنایا ہے جو ایک خاتون کو دو حصوں میں بانٹتا ہےاور وہ اپنی پہچان کھو دیتی ہے۔سنیل یاؤلیکر کی کویتاؤ ں کی کتاب ’ پیل‘(دوسروں کے دکھ سے بہت دکھی ہونا) مراٹھی میں مقبول ہوچکی ہے ۔ ان کا ایک ناول Aswastha Vartamaan( غیر صحت مند حال)بھی شائع ہوچکا ہے۔مذکورہ دونوں تصانیف کو ایوارڈوں سے نوازا جا چکا ہے ۔ ’ مراٹھی بھاشا بال بھارتی ‘ اور ’ راجیہ شکشن منڈل‘( پونے)کے سابق مدیرحالیہ دنوں اپنا دوسرا ناول لکھ رہے ہیں۔
_:::::::::

عالمی دستک 2024
افسانہ نمبر 49
اولادِ نرینہ
مریم ثمر ۔ کینیڈا 
چہار سو سیاہ بادل چھائےتھے ۔ سرخ آندھی ایسی تھی کہ ہر منظر دھنلاتا تھا ۔ مغرب ہوئی تو آذان کی آواز جھونکوں سے قریب تو کبھی دور جاتی تھی .
لقمان نے موسم کے آثار اور تیور دیکھے تو احمد کو پیر صاحب سے ملاقات ملتوی کرنے پر اصرار کیا ۔ مگر وہ بضد تھا اس کا کہنا تھا یہی تو امتحان اور آزمائش کی گھڑی ہوا کرتی ہے ۔ خواہ کیسے ہی مشکل حالات ہوں پیر صاحب کا دیدار ہوکر ہی رہے گا ۔ ویسے بھی ملاقات کے لئے دن مقرر ہوچکا تھا ۔ پھر دوبارہ سے وقت لینا کیسی کڑی آزمائش تھی وہی جانتا تھا ۔ہزاروں مریدین اور عاشقان کی کتنی ہی درخواستیں ملاقات کی منتظر تھی وہ یہ منظر دیکھ چکا تھا جب وہ اپنی درخواست دینے پہنچا تھا ۔
چارو ناچار لقمان کو اس کی بات ماننی پڑی ۔ گاڑی کو سڑک پر اتارا اور دھمی رفتار سے آگے بڑھانا شروع کیا ۔ ہچکولے کھاتی گاڑی کبھی اِدھر تو کبھی ادھر جھولتی ۔ ایسے میں نجانے کہاں سے ایک پتھر آکر گاڑی سے یو ں ٹکرایا کہ ونڈ سکرین پر بڑا سا آڑھا ترچھا سوالیہ نشان بنا گیا ۔ اچانک موسلا دھار بارش برسنے لگی ۔ بادلوں کی خوفناک گرج اور بجلی کی دل دہلا دینے والی کڑک سے دل سہم سہم جاتا تھا ۔
لقمان نے بےچارگی اور غصے کےملے جلے جزبات سے احمد کی طرف دیکھا مگر چپ رہا اور صبر کے گھونٹ پی کر رہ گیا ۔
 احمد بولا '' یار لقمان یہ تومعمولی آزمائش ہے نیکی کے کاموں میں اکثر اس قسم کے نقصان نقصان نہیں ہوا کرتے بلکہ نیکوں میں شمار ہوتے ہیں ہم مرشد پاک سے ملنے جارہے ہیں ایک نیک مقصد اور نیک نیت کا اجر خدا کی طرف سے مقرر ہے ۔''
لقمان نے اس کا کچھ جواب نہ دیا اور نظریں سڑک پر مرکوز کرتے بچتے بچاتے بالآخر مطلوبہ مقام تک پہنچ گئے ۔
احمد کا دل و دماغ ایک عجیب سرشاری کے نشے میں تھا ۔ وہ اس بات سے بھی بے حد خوش تھا کہ آج اپنے امیر المومنین مرشد پاک سے ملنے اکیلا نہیں بلکہ اس کا دوست لقمان بھی ساتھ تھا جو کسی اہم مسئلے کی وجہ سے شہر کے بڑے پیر صاحب سے ملنے کا خواہش مند تھا ۔ اگرچہ ذہنی طور پر وہ کچھ کشمش کا شکار تھا اسے جب علم ہوا کہ مرشد پاک کی چار بیٹیاں ہیں اور کوئی اولادِ نرینہ نہیں ۔ اس لئے وہ گومگو کی کیفیت سے دوچار تھا مگر ایک آس اور امید کا دامن تھا جو تھام رکھا تھا ۔
مرشد، مرید یا پھر پیر فقیر کا بھی ایک عجیب رشتہ تھا ۔ بس اطاعت ہی اطاعت حکم عدولی کا تصور سوہان روح گویا موت کو دعوت دینے جیسا ۔ ایک دن مرشد پاک نے بیعت کا مفہوم و مطلب سمجھاتے ہوئے فرمایا تھا کہ بعیت کا مطلب ہے بک جانا اپنا سب کچھ نچھاور کردینا بغیرچوں چراں کئے بغیر سوال کئے ۔ 
یہی وجہ تھی کہ اب تو بکے ہوئے غلاموں کے لئے آقا کی آنکھ کی جنبش اور ہلکا سا اشارہ بھی حکم کا درجہ رکھتا تھا ۔ احمد اپنے مرشد پاک کی عقیدت اور محبت میں ایسا ڈوب چکا تھا کہ جب تک سال بھر میں ایک دفعہ ان کا چہرہ مبارک نہ دیکھ لیتا سکون نہ میسر آتا ۔ باوجود اس کے کہ جمعہ کے جمعہ ٹی وی سکرین پر جب جلوہ افرورز ہوتے تو دیدار نصیب ہوجاتا تھا ۔
وہ ایک خطیر رقم بطور نذرانہ نذر کرنے ہرمہینے کے آغاز سے ہی جوڑنا شروع کردیتا تھا ۔ جس کی ادائیگی پر اسے ایک عجیب سرور لزت اور نشے کا سا احساس ہوتا تھا ۔ 
احمد اور دیگر عقیدت مندوں سے ہفتہ وار منعقدہ اجلاس میں جان مال وقت اور یہاں تک کے اولاد کو بھی قربان کرنے کا عہد لیا جاتا تھا اور اس عہد کے نبھانے کا سوچ کر ہی اسے جو ذہنی سکون سکینت اور روحانیت کی معراج عطا ہوتی تھی اسے بس وہی سمجھ سکتا تھا ۔ وہ اپنے مرشد پاک کا ایک سَچا اور سُچا عاشق تھا ۔
احمد نے لقمان کو مسجد میں بٹھایا اور خود مرشد پاک سے ملنے ملحقہ کمرے میں چلا آیا ۔ کمرہ جدید سائنسی سہولیات سے آراستہ تھا۔ جگہ جگہ حفاظتی کیمرے نسب تھے ۔ یہ حفاظتی آنکھ مریدین کی ایک ایک حرکت کو دیکھتی اور ریکارڈ کرتی جاتی تھی ۔
اب کی بار احمد کچھ حیرت اور تجسس کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا ۔ اسے خوب یاد تھا کہ ابھی چند ماہ قبل ہی وہ کس آزادی سے جب چاہے اپنے مرشدپاک سے ملاقات کا شرف حاصل کر سکتا تھا ۔ ایک چھوٹا سا کمرہ اور چند کرسیاں ۔ مگر اب تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اللہ کی برکات کا نزول چہار جانب ہے ۔
دروازے پر کھڑے چاک و چوبند سیکورٹی گارڈ نے اچھے سے تلاشی لی ۔ اس کا موبائل، وائلٹ، گاڑی کی چابیاں ،شناختی کارڈ اور ملاقات کا تحریری اجازت نامہ لے لیا ۔ اس کے نام کی تصدیق کمپیوٹر میں پہلے سے درج ناموں کی فہرست سے کی گئی ۔ موبائل کے بارے بتایا کہ دشمن ،مخالفین اور منافقین ویڈیو اور آواز ریکار ڈ کرکے اس کا غلط استعمال کرتے ہیں اس لئے احتیاط کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ۔
مرشد پاک کے نزدیک کسی بھی مرید پر مکمل بھروسہ اور اعتماد کرنا اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔ جس کا وہ برملا اظہار بہت دفعہ اپنے بااعتماد سیکورٹی گارڈ کے سامنے کر چکے تھے ۔
کپڑوں کی تلاشی کے دوران احمد کو ایک لمحہ کے لئے یہ سب کچھ عجیب لگا اسے ہتک کا بھی لمحہ بھر احساس ہوا ۔
مگر پھر شیطانی خیال سمجھ کر سختی سے جھٹک دیا اور کچھ لمحے کے لئے سخت پریشان ہوا کانوں کو باقائدہ ہاتھ لگا کر توبہ کی اور استغفار پڑھتے آگے بڑھا ۔
بے پناہ تقدس و احترام کے جزبات لئے احمد کمرے میں داخل ہوا تو اس کی آنکھیں عقیدت اور محبت کے جزبات سے لبریز چمک اٹھیں ۔ اس نے مرشد پاک کے دونوں ہاتھوں کو بوسہ دیا اور اسی عقیدت و احترام کے جزبے سےآنکھوں سے لگایا
  نذرانے کی ایک معقول رقم مرشد کے نذر کی ۔ جسے مرشد پاک نے کمال بے نیازی سے بغیر گنے مگر وزن کا دل ہی دل میں حساب لگاتے ہوئے پاس ہی با ادب کھڑے پرسنل سیکرٹری کے ہاتھ میں تھما دی
مرشد پاک نے میز کے کونے پر رکھے سینیٹائزرکے چند قطرے ایک ہاتھ پر انڈیلے پھر دونوں ہتھیلیاں ملا کر صاف کئے
احمد کچھ فاصلے پر دوزانو بیٹھ گیا اور آنے کا مدعا بیان کیا
''مرشد پاک ! حضور کی خدمت اقدس میں اپنے دوست لقمان کی حاضری کی اجازت چاہتا ہوں۔ وہ کافی مال و اسباب رکھتا ہے مگر اولاد نرینہ سے محروم ہے ۔ اس سے قبل کئی دعائیہ خطوط بھی تحریر کر چکا ہے آج خود نفس نفیش حضور کی خدمت میں پیش ہوکر حاضری کی اجازت کی امید لئے دعا کی درخواست پیش کرنا چاہتا ہے ۔
مرشد نے توجہ سے مرید کی بات سنی اور گویا ہوئے
''اللہ تبارک تعالی یہ ملاقات ہر لحاظ سے بابرکت اور کامیاب کرے میں نے تمہیں پچھلی ملاقات میں اس بات کی تحریک کی تھی کہ اپنے ساتھ ملاقات کے لئے زیادہ سے زیادہ افراد کو لاتے رہو ملاقات کا یہ فیض جاری رہنا چاہیے تاکہ لوگوں میں روحانیت کو پانے کی خواہش برقرار رہے خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجرعظیم بخشے اور ان پررحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے غم و ہم کو ان سے دور فرماوےاور ان کو ہریک تکلیف سے خلاصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پرکھول دیوے اور روزِآخرت میں اپنے نیک متقی او رپرہیزگار بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے 
احمد کو مرشد پاک کی اس کے حق میں یوں کی گئیں دعاوں نے عجیب سی سرمستی میں غرق کردیا۔ وہ اس وقت خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین مرید سمجھ رہا تھا ۔ سرشاری سے سرشار دھیمے لہجے میں بولا
فداہ نفسی ، حضور! میرا دوست لقمان پہلی دفعہ آپ سے ملاقات کا خواہش مند ہے اس کے پاس ملاقات کا اجازت نامہ نہیں حضور اگر اپنے پرسنل سیکرٹری کو اس سلسلہ میں ہدایات جاری فرمادیں تو خاکسارآپ کا ممنون ہو گا ۔
احمد حسب روایت مرشد پاک کے ساتھ تصویر لینے کی درخواست کرنا نہ بھولا ۔ پرسنل سیکرٹری نے آگے بڑھ کر احمد کو ماسک پہننے کو کہا اور اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں وہ مرشد پاک سے کچھ فاصلے پر دائرے کی صورت مخصوص تھی یہاں کھڑے ہوکر وہ تصویر بنا سکتا تھا ۔ احمد کے لئے یہی کیا اعزاز کم تھا کہ ایک دفعہ پھر اس کی مرشد پاک کے ساتھ تصویر ہوگی جسے وہ بڑا سا فریم کرواکر اپنے گھر کی نمایاں جگہ پر آویزاں کرےگا آتے جاتے دیدار کرے گا اور لوگوں کو بھی فخر سے اس ملاقات کا احوال بتائے گا۔  
پھر کچھ توقف کے بعد مرشد پاک بولے 
جاو اور اسے ادھر ہی لے آو ۔ ''
 مرشد پاک نے اپنے پرسنل سیکرٹری کی جانب نگاہ کی جو کچھ ہی فاصلے پر ہاتھ باندھے حکم کا منتظر تھا اس نے اثبات میں سر ہلایا اور الٹے قدموں مسجد کی جانب چل دیا ۔
احمد سکرٹری کے ساتھ واپس آیا لقمان ان دونوں کو آتا دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ سکرٹری نے کہا کہ ایک وقت میں ایک شخص کو ہی ملاقات کی اجازت ہے اس لئے احمد کو وہیں رہ کر انتظار کرنا ہوگا ۔ احمد نے لقمان کے قریب آکر اس کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بتایا کہ یہ محترم پرسنل سیکرٹری صاحب جو مرشد پاک کے بھتیجے ہیں مرشد پاک کے اگلے جانشین ہیں ۔ مگر اس نے اس کا کسی سے ذکر کرنے سے منع کردیا ۔ احمد ، لقمان کو اس لئے یہ اس لئے بتانا چاہتا تھا کہ لقمان اس پرسنل سیکرٹری کے بھی عزت و احترام اور اطاعت میں کوئی کمی نہ رہنے دے ۔ 
احمد کو یہ بات گزشتہ خطبہ جمعہ سننے کے بعد معلوم ہوئی جس میں ایک خواب کے زریعے آنے والے جانشین کی جانب اشارہ تھا ۔ 
لقمان نے احمد کی بات بغور سنی اور سرہلاتا ہوا پرسنل سیکرٹری کے ساتھ ہولیا
احمد کے دوست لقمان سے بھی موبائل رومال شناختی کارڈ اور وائلٹ لے کر رکھ لیا گیا کپڑوں کی تلاشی کے بعد اسے مرشد کے کمرے میں لے جایا گیا
لقمان دل میں ایک امید اور آس لئے نوروں نہلائے کمرے میں داخل ہوا جس کے درمیان میں پڑی میز اور آرام دہ کرسی کے پیچھے مرشد پاک سفید پگڑی سفید اچکن اور سفید شلوار کے ساتھ ایک شان بے نیازی سے براجمان تھے ۔
اس روشن کمرے میں مختلف قرآنی نسخہ جات کئی تفاسیر تمام مذاہب اور فرقوں کی کتابیں قرینے سے سجا رکھی تھیں ۔ کمرے کی مشرقی دیوار پر اس مقدس خاندان کے گزرے روحانی جانشینوں کی تصاویر کا ایک بڑا سا فریم بھی موجود تھا ۔جو گزشتہ ادوار میں اس عظیم روحانی گدی نشینی پر اپنے فرائض سر انجام دے کر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ 
مغربی دیوار پر پوری دنیا کا نقشہ تھااس میں جہاں جہاں ان کے مرید پھیل چکے تھے اس کی نشاندہی مخصوص رنگ کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے گاڑ کر کی گئی تھی ۔
احمد کے دوست لقمان نے ایک طائرانہ نگاہ کمرے پر ڈالی اور ادب سے مرشدپاک کے عین سامنے بیٹھ گیا ۔
مرشد نے سلام و دعا کے بعد خیر خیریت اور کاروبار سے متعلق پوچھا اور پھر آنے کا مدعا دریافت فرمایا اگرچہ وہ احمد کے بتانے پر پہلے سے جانتے تھے ۔ دوسرے ہر مرید کے ملاقات سے پہلے اس کا تمام تر ریکارڈ فائل کی صورت مرشد پاک کے میز پر پہنچا دیا جاتا تھا ۔ 
مگر لقمان نہیں جانتا تھا اس لئے وہ کچھ لمحے ٹھٹک گیا اس کی پہلی ملاقات تھی تو حضور کو کیسے غیب کا علم ہوگیا ۔؟
 اس نے خود سے سوال کیا پھر دوبارہ سے خود کو مطمئن کیا کہ یقینا اللہ بزرگ و برتر کی جانب سےمرشد پاک کو خبر دی گئی ہوگی ۔
لقمان مودبانہ انداز میں گویا ہوا
''حضور اقدس کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ آپ کے علم میں بھی ہے کہ میرے بے شمار کاروبار ہیں دولت کی فراوانی ہے کارخانے فیکٹریاں کئی ایکٹر اراضی کے علاوہ کیا کچھ اس کی پاک ذات اور رحمت نے نہیں دے رکھا مگر کاروبار سنبھالنے کے لئے نرینہ اولاد نہیں
حضور دعا کی درخواست ہے کہ اللہ اس عظیم نعمت سے بھی سرفراز فرمادے ۔''
پچاس پچپن سال کا لقمان آنکھوں میں امید کی کرن لئے جھکا عاجزی اور انکساری سے اپنا مدعا بیان کر رہا تھا ۔
اس نے مزید بتایا کہ دو بیٹیاں ہیں جو اعلی تعلیم یافتہ ہیں جن کے مستقبل کو لے کر بھی کافی فکر مند ہے ۔ ان کے اچھے نیک رشتوں کے لئے بھی دعا کی عاجزانہ درخواست ہے ۔
پیر صاحب نے نیم وا نگاہوں سے دیکھا اورنپے تلے نرم لہجے میں فرمایا
ہم اس کے لئے تمہیں مخصوص حکیمی نسخہ اولاد نرینہ دیتا ہوں مگر ساتھ ہی کہنا چاہیں گے کہ 
میاں !دعا کا فلسفہ یہ ہے کہ صرف ہاتھ اٹھانے سے دعا نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے قلبی کیفیت کا پیدا ہونا ضروری ہوا کرتا ہے ۔
جب آدمی کسی کے لئے دعا کرتا ہے تو اس کے لئے ان دو باتوں میں سے ایک کا ہونا ضروری ہوتا ہے یا تو اس شخص کے ساتھ کوئی ایسا گہرا تعلق محبت و اخلاص کا ہو اور رابطہ ایسا گہرا ہو کہ اس کی خاطر دل میں ایک خاص درد اورگداز پیدا ہوجائے جو دعا کے لئے ضروری ہے اور یا اس شخص نے کوئی ایسی غیر معمولی دینی خدمت کی ہو کہ جس پر دل سے اس کے لئے دعا نکلے ۔مگر دیکھو میاں ! ہم تو تمہیں دینی لحاظ سے جانتے نہیں اور نہ ہمیں علم ہے کہ تم نے کوئی دینی خدمت سرانجام دی ہے جس کے لئے ہمارا دل پگھلے۔
پس دین کی خدمت کے لئے دس لاکھ روپیہ دینے کا وعدہ کرو ہم ضرور دعا کریں گے اور ہمیں یقین ہے کہ تب اللہ بھی تمہیں ضرور اولادِ نرینہ سے نواز دے گا ۔
میں مقرر کہتا ہوں اگر تم ہمیں دس لاکھ نذرانہ دو تو میں تمہارے لئے ضرور گداز دل اور رقت و سوز سے دعا کروں گا اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ تمہیں اللہ تبارک تعالی اولاد نرینہ جیسی نعمت سے ضرور سرفراز فرماوے گا بلکہ ہم تمہیں خوشخبری سناتے ہیں کہ رقم کی ادائیگی کے ساتھ ہی اولادِ نرینہ کی دعا بارگاہ الہی میں قبولیت کا شرف پالے گی ۔ 
مبارک وہ جو دین کی راہ میں ایک بڑا نذرانہ نذر کرتے ہیں دنیا اور آخرت میں فلاح پاتے ہیں
لقمان نے خاموشی سے بیان سنا اور سر جھکالیا ۔ بیان اثر انگیز تھا مگر لقمان کے دل و دماغ میں ایک عجیب سی جنگ اور کشمکش جاری ہوگئی ۔
اس کی نگاہوں میں اپنی دونوں پڑھی لکھی نوجوان ذہین بچیوں کے چہرے گھوم گئے ۔جو بہت بار کاروباری معاملات سیکھنے کی ضد کر چکی تھیں اور قرون اولی کی مثالیں دیا کرتی تھیں پھر بتاتیں کہ بالکل ایسے ہی آج کی عورتیں کاروباری معاملات میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ مردوں کے شانہ بشانہ ہر میدان میں کامیاب ہیں ۔ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں ملکی اور بین الاقوامی طور پر اعلی ترین اعزازات بھی لے رکھے ہیں ۔
بیٹیوں کے الفاظ اس کی یاداشت میں گونجنے لگے 
بابا ہم جدید سائنسی طریقوں سے آپ کے کاروبار کو ہمیشہ منافع بخش کاروبار کے طور پر چلانے کی صلاحیتیں رکھتیں ہیں آپ بس ایک دفعہ ہم پر اعتماد اور بھروسہ کیجئے بابا ایک دفعہ ہمیں آزما کر تو دیکھئے ۔ 
بیٹیوں کے تصور سے لقمان کی آنکھیں چمک اٹھیں اس نے وہیں ایک فیصلہ لیا اورمطمئن ہوکر اٹھا ایک نظر مرشد پاک کے عالی شان کمرے پر ڈالی اور معنی خیز مسکراہٹ سے سلام کرتا ہوا الٹے قدموں واپس ہولیا ۔
واپسی پر مطلع صاف تھا ۔بارش بھی تھم چکی تھی ۔ گرد وغبار دھل چکا تھا ۔ نیلا اودھا آسمان ایک عجیب فرحت آمیز نظارہ پیش کرتا تھا ، سڑک شفاف تھی ، تاحد نگاہ پھیلے پھول ، پھل ،پودے، درخت مزید نکھر کر اپنی بہار دکھا رہے تھے الغرض تاحدنگاہ ہر چیز صاف ستھری نکھری نکھری واضح اور روش نظر آتی تھی جو دل و دماغ کو عجیب فرحت ،تراوت، راحت اورخوشگوار آزادی کا احساس دلاتی تھی ۔
_________

🌷 اک رنگِ تغزل ایسا بھی 🌷 

مجبوری کالی بلی ہے
میرا رستہ کاٹ رہی ہے

تنہائی کتنی میٹھی ہے
کیا تم نے چکھ کر دیکھی ہے؟

 سچائی برداشت کروگے؟
 یہ کافی کڑوی گولی ہے

تم؟ اور شرمندہ؟ ناممکن
سورج کو گرمی لگتی ہے؟؟

پھر ٹوٹا ہے خواب کسی کا
میں نے اک آواز سنی ہے

درد کو تھوڑا ہلکا کردو
ضبط کی رسی ٹوٹ رہی ہے

جرم کے رستے پر مت چلنا
بے چینی پیچھا کرتی ہے

چاند سے چہرے پر مت اِترا
چاند پہ اک بڑھیا رہتی ہے

سب مل کر دنگا کرتے ہیں
ان لوگوں میں یکجہتی ہے

سب کو چھوڑو اس کو پکڑو
اس کے ہاتھوں میں روٹی ہے

پہلے اس کی آنکھیں پھوڑو
ان انکھوں میں سچائی ہے

تم اپنا حق مانگ رہے ہو؟
یہ تو کھلی غنڈہ گردی ہے

تعبیریں ٹیریس پر ہیں اور
خواب کی سیڑھی ٹوٹ گئی ہے

کون سا دکھ ہے اس دنیا کو
بیٹھے بیٹھے رو پڑتی ہے

جھوٹے لوگوں کی محفل میں
خاموشی بھی حق گوئی ہے

اس لڑکی کی عزت لے لو
یہ بس میں تنہا بیٹھی ہے

اس میں کیسی سہولت صاحب
یہ اسکول تو سرکاری ہے

اب کے سب کچھ اچھا ہوگا
دل کو کیسی خوش فہمی ہے

🖋فرحان دِل ـ مالیگاؤں ـ
📞 9226169933
__________

غزل 

سانس لیتے ہوئے گھن آتی ہے ۔۔
یہ زمیں ویشیا کی چھاتی ہے۔۔

ہم کسی اور ہی جہان کے تھے ۔۔
آدمی ہونا حادثاتی ہے ۔۔

 مجھ کو کہتی ہے پورے پاگل ہو۔۔
اور انگلی کو یوں گھماتی ہے ۔۔

تجھ حیا کو جو کھینچتی ہے ہوس ۔۔
 یوں سمجھ ، جوئےشیر لاتی ہے ۔۔

اک بدن سے جڑی ہوئی ہے حس ۔۔
دیکھیے کب فراغ پاتی ہے ۔۔

نرگسی پھول نیلے پانی پر ۔۔
 ایک کشتی ندی میں گاتی ہے ۔۔

زندگی ، موت کے نشے میں ہے۔۔
دم بہ دم ڈولتی ہی جاتی ہے۔۔

کن کواڑوں سے جھانکتی ہے حیات ۔۔
 روشنی کس جگہ سے آتی ہے ۔۔

میں کوئی شام ہوں جسےراشد۔۔
 زندگی بے طرح مناتی ہے۔۔

راشد امام

*🔴سیف نیوز بلاگر*

کراچی میں 6 منزلہ رہائشی عمارت گرگئی ، 9 افراد جاں بحق ، متعدد زخمی کراچی: لیاری بغدادی میں 6 منزلہ رہائشی عمارت گرگ...