Sunday, 23 February 2025

*🛑دیار ادیب ادبی پوسٹ**سیف نیوز اردو**کمبخت یہ بات بھی اردو میں کہی ہے**🌸اتواریہ* *🔴شکیل رشید ممبئی اردو نیوز* *🔴مہاراشٹر کی مانگ میں کہانی کا سندور**ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ صادقہ نواب سحر کے ناول پہ ایک تحریر**🔴احمد نعیم* *⚫مرثیہ عارف**🔴مرزا غالب* *مرثیہ نوَ تصنیف* *🔴اختر عثمان**🛑انتخاب و رابطہ ....... احمد نعیم .....موت ڈاٹ کام بھارت**🛑اس صفحے پر روزآنہ متفرق ادبی مواد شائع کیے جاتے ہیں۔۔۔۔ آپ بھی اپنی تخلیقات اِس نمبر پر واٹساپ کرسکتے ہیں**9273946747**Saif news*

’یہ بات بھی کمبخت نے اردو میں کہی ہے‘

اتواریہ : شکیل رشید
بات یوگی آدتیہ ناتھ اُور اردو زبان کی ہوگی ، لیکن اِس سے پہلے امریکی دانشور نوم چومسکی کی چند سَطریں پڑھ لیں : ’’ زبان محض الفاظ کا ملغوبہ نہیں ، یہ ایک ثقافت ، ایک روایت ، سماجی وحدت ہے ۔ یہ ایک پوری تاریخ ہے جو سماج کو وجود میں لاتی ہے ۔‘‘ مذکورہ سطریں ، فیس بک کے سرحد پار کے ایک دوست نفیس حیدر کی ایک پوسٹ سے نقل کی ہیں ، اور یہاں اس لیے انہیں پیش کیا ہے کہ لوگ سمجھ لیں ’ زبان کو زندہ رکھنے کا مطلب ایک سماج کو زندہ رکھنا ہے ، زبان سے سماج وجود میں آتا ہے ، اور زبان مٹنے سے وہ سماج ، جس کی زبان مٹتی ہے ، خود مٹ جاتا ہے ، یا اپنی شناخت ، اپنا وجود کھو دیتا ہے ‘۔ تو ، یہ سمجھ لیں کہ یوگی کا اُردو زبان پر حملہ ، اور اُردو کو ’ کٹھ ملّوں ‘ کی اور غیر ملک کی زبان قرار دینا ، صرف ایک زبان پر حملہ نہیں ہے ، یہ ایک ثقافت پر ، ایک روایت پر ، سماجی وحدت پر حملہ ہے ۔ اور چونکہ یوگی یہ غلط فہمی پالے ہوئے ہیں ، بلکہ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو اِس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا گیا ہے ، کہ اُردو مسلمانوں کی زبان ہے ، لہذا اُن کا یہ حملہ ، ان کے اپنے خیال سے مسلمانوں کی ثقافت پر ، روایت پر اور سماجی وحدت پر کیا گیا حملہ ہے ۔ لیکن یوگی کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ اُردو پر حملہ صرف مسلم سماج پر نہیں ، ہندوستان کی روایت پر حملہ ہے ، وہ روایت جس کے محافظ فراق گورکھپوری تھے ، اُسی گورکھپور کے جہاں کے مٹھ کے یوگی مہنت ہیں ! یوگی کو پتا ہونا چاہیے کہ پنڈت دیا شنکر نسیم ، نولکشور ، چکبست ، رائے سدھ ناتھ بلی فراقی ، پنڈت آنند نارائن ملّا ، پریم چند ، سدرشن ، کرشن چندر اور نہ جانے کتنے ہندو کے شعراء اور ادباء نے اُردو کی زلفیں سنواری ہیں ، فراق صاحب نے تو ہندی کے مقابلے اُردو کا مقدمہ لڑا ہے ، تو کیا یہ سب کے سب ’ کٹھ ملّا ‘ تھے ! اور ہاں ساورکر بھی اُردو لکھتے پڑھتے تھے ، لہذا یوگی کے لحاظ سے وہ بھی ’ کٹھ ملّا ‘ ہوئے ۔ یوگی ایک ریاست کے ، وہ بھی اترپردیش جیسی سب سے بڑی ریاست کے وزیراعلیٰ ہیں ، انہیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ اترپردیش کی راجدھانی لکھنٗو کا نام ’ شستہ اور شیریں اُرود ‘ کے لیے ساری دنیا میں مشہور ہے ۔ لکھنٗو کے رکشہ چلانے والے بھی ’ آپ جناب ‘ سے بات کرتے ہیں ۔ لکھنٗو پہنچنے پر لکھا ملتا ہے کہ ’ مسکرائیے کہ آپ لکھنٗو میں ہیں ۔‘ اُردو ’ کٹھ ملّاؤں ‘ کی زبان نہیں ہے ، اُردو اُس تہذیب کی زبان ہے ، جِس سے یوگی ناواقف ہیں ۔ ایک وزیراعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے اُردو زبان کے خلاف جو بدزبانی کی ہے ، اُسے سُن کر ساری دنیا مہذب اور غیر مہذب کا فرق جان گئی ہوگی ، پتا چل گیا ہوگا کہ پڑھ لکھ کر بھی کوئی جاہل کیسا ہوتا ہے ، اور لوگوں کو یہ بھی خوب پتا چل گیا ہوگا کہ ایک آئینی عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص کے اندر مسلمانوں کے خلاف کس قدر نفرت ، کراہت اور گھن بھری ہوئی ہے ۔ وہ کیسے سارے سماج کو بے شناخت کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے ۔ یوگی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اُردو کے خلاف بول کر وہ ’ واہ واہ! ‘ بٹور لیں گے ، لیکن سچ یہ ہے کہ اُردو کے خلاف بول کر انہوں نے صرف مذمت بٹوری ہے ، اور مذمت کرنے والوں میں اچھی خاصی تعداد میں ہندو بھی شامل ہیں ۔ یوگی نے جو تقریر کی اس میں آپ ایم پی سنجے سنگھ کے بقول دس اردو کے الفاظ شامل تھے۔ ایک شعر پڑھ لیجئے۔
اردو کو مٹا دیںگے ایک روز جہاں سے
یہ بات بھی کمبخت نے اردو میں کہی ہے
______--------

🔴مہاراشٹر کی مانگ میں کہانی کا "سنُدور" صادقہ نواب سحر 🔴
⚫ناول کے ساتھ سفر کرنا___ایک مکمل زندگی کے ساتھ سفر کرنا ہے ⚫"
       زندگی کے کتنے ہی رنگ ہوتے ہیں یہ کہانیوں اور ناولوں کے پڑھنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے
  ہر کہانی، ناول زندگی کے مختلف رنگ، مختلف خوشبو،بکھیر کر سامنے آتی ہے
وقت کی رفتار کو صفہ قرطاس پہ اپنے رنگ برنگ کہانی سے بکھیرنے والی شمالی ہند کی مشہور کہانی کتھا کا نسوائی پیکر "صادقہ نواب سحر" اردو ہندی مراٹھی زبانوں کی اعتماد بھر نمائندگی، ادبی سمیناروں کا معروف چہرہ، مہاراشٹر کی لوک کتھا کی مٹی سے جڑی مکمل کہانی کار "صادقہ نواب سحر"
کہانی کوئی سناُ متاشا "کے بعد صادقہ صاحبہ کا نام فکشن میں گونجا یہی وہ ناول تھا جس کا چرچا نہ صرف بھارت بھر میں ہوا بلکہ برصغیر کے سنجیدہ ناولوں میں تواتر کے ساتھ ہوا جس نے نہ صرف سنجیدہ قاری بلکہ منفرد لکھنے والے بھی متوجہ ہوے
صادقہ صاحبہ:-اپنے آس پاس کے کرداروں کو زبان عطا کرتی۔ ہیں بلکہ اُن کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو بھی اپنی پکی سیاہی میں جذب کرکے احساس قاری و ایک دنیا کے سامنے ان کے مسائل سے آگاہ کرتی۔ ہیں یہ بات تو طے ہے کہ صادقہ صاحبہ کو پڑھتے ہوے ہر قاری اُچھل ضرور جاتا ہے کہ ارے اس مسائل پر بھی کہانیاں لکھی جا سکتی ہیں اـس کو بھی فکشن کا حصہ بناکر عوام کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے
صادقہ صاحبہ کا حالیہ ناول "جس دن سے" ایک ایسا ہی جیتا جاگتا سانس لیتا زندگی کرتا ہمارے آس پاس کے کرداروں سے چنُا گیا ناول ہے جس پر صادقہ صاحبہ نے وہاں تک رسائی حاصل کی جہاں تک اکثر لکھنے والوں کی قلم کی دھوپ بھی نہیں جاتی
زندگی نامہ کا یہ ناول "جس دن سے" پڑھنے والا مطالعہ کرتے۔
چونک، چونک ضرور جاتا ہے کہ ارے یہ کہانی تو اُس کی ہے یہ کہانی تو "اپنی" ہے صادقہ کے ناول ہوں یا کہانی اُن کے کردار آس پاس بستے ہیں ہمارے درمیان سانس لیتے ہیں، زندگی کرتے ہیں اور پھر بےسیاہی کے ہی مر جاتے ہیں مگر صادقہ صاحبہ جیسی تیز نظر اور گہرا مشاہدہ اُنہیں کہانی یا ناول کے روپ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صفہ قرطاس پہ قید کر ہی لیتا ہے
           ناول "جس دن سے" بھی ایسا ہی ناول ہے جب کوئی خاندان ٹوٹ پھوٹ کی کگار پر ہو تو زندگی بکھیر جاتی ہے، اُس کی صورت بگڑ جاتی ہے
   زندگی بدصورت ہو جاتی ہے
ہر اٹھنے والے قدم کے نیچے کانٹے محسوس ہوتے ہیں جہاں جسم ہی نہیں انسانی روح اور احساس قاری بھی گھائل ہوجاتے ہیں درد بھرا تلخ سچائی کا بیاینہ ناول "جس دن سے" کا موضوع ہے
جس میں باپ اس لڑکے (ناول کا مرکزی کردار ) کو چھوڑ کر دو اور عورتوں سے شادی رچا لیتا ہے
   _____ایسے میں ماں کیا کرے__؟؟؟؟ 
سماج کی ضروریات کے ساتھ جسم کی بھی ضرورت ہوتی۔ ہے۔ سو وہ ماں بھی کسی دوسرے آدمی کے ساتھ رہنے لگتی ہے دونوں ماں باپ کے الگ الگ رشتوں سے الگ الگ اولادیں بھی ہیں اور یہاں سے ہی صادقہ نواب سحر "کا قلم اپنا جلوہ زندگی نامہ کی تصویر بڑی بےدردی سے پیش کرتا ہے جہاں کوئی بھی کمپرمیز نہیں ہے خاندان کی الجھین کے بعد ایک دنیا باہر کھڑی ہوتی ہے ___بےرحم__اور بےچہرہ دنیا ___ ناول چلتے چلتے کبھی کبھی گھر گھر کی کہانی کا آئینہ،بھی بن جاتا ہے اگر چہ خواتین یہ ناول پڑھیں تو ورق ورق، سطر سطر، پورے احساس اور حقیقی طور پر اس ناول کے تجربات اور اپنے خود کے مشاہدہ سے بھی گزاری ہو گی-کہیں نہ کہیں
مزکورہ ناول میں نا کوئی نظریہ ہے، نا کسی تحریک سے متاثر ہے بس زندگی کی شطرنج پہ کرداروں کے سیاہ سفید مہرے زندگی کے ساتھ اپنی اپنی چالیں چلتے چلے جاتے ہیں
   زندگی سے جہدوجہد کا ایسا بیاینہ جو تیڑھے میڑے الجھے رشتوں اور خار دار راستوں میں بھی زندگی تلاش ہی کر لیتا ہے
   ناول کا انتساب :-"صادقہ نواب سحر صاحبہ نے اپنی بیٹی "لبنیٰ" اور ناول کے مرکزی کردار "جیتو" کے نام اور اس جیسے بےشمار نوجوان کے نام کیا ہے (ناول کا کردار کا نام بھی علامتی طور پر" زندگی "ہی ہے )  
"جس دن سے" میں اعتماد بھر ناقد و منفرد کہانی کتھا کار "رتن سنگھ" نے بھی اپنی قیمتی راے دو صحفہ پر دی ہےجوکہ خود ایک دستخط ہے(ناول ایجوکیشنل پبکیشر سے دستیاب ہےدہلی)

صادقہ نواب سحر صاحبہ مہاراشٹر کے علاقہ کھپولی سے تعلق رکھتی ہیں نیز ہمہ وقت وہ ادب اور ادب نواز اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہتی ہیں مہاراشٹر کی لوک کتھا اور یہاں کے رہن سہن تہذیب اُن کی کہانیوں اور ناول میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اگر ہم انھیں مہاراشٹر کی مانگ میں کہانی کا "سندور" کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا برصغیر میں اُن کی کہانیاں ناول شاعری کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ناقدین فنَ کی نظروں میں اعتماد بھر پکی سیاہی کا نام "صادقہ نواب سحر" ہے
مزید آگے راستہ ہے
مسافر سفر میں ہے
صادقہ صاحبہ کے قلم سے نا جانے اور کتنی تلخ حقیقت کا اظہاریہ ٹپکتا رہے گا اور اردو ادب کو مالا مال کرتا رہے
     اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
بارہ ربیع الاول بروز جمعہ
شب10/25
⚫احمد نعیم مالیگاؤں بھارت🇮
_____________________
🔴مہاراشٹر کی مانگ میں کہانی کا "سنُدور" صادقہ نواب سحر 🔴
⚫ناول کے ساتھ سفر کرنا___ایک مکمل زندگی کے ساتھ سفر کرنا ہے ⚫"
       زندگی کے کتنے ہی رنگ ہوتے ہیں یہ کہانیوں اور ناولوں کے پڑھنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے
  ہر کہانی، ناول زندگی کے مختلف رنگ، مختلف خوشبو،بکھیر کر سامنے آتی ہے
وقت کی رفتار کو صفہ قرطاس پہ اپنے رنگ برنگ کہانی سے بکھیرنے والی شمالی ہند کی مشہور کہانی کتھا کا نسوائی پیکر "صادقہ نواب سحر" اردو ہندی مراٹھی زبانوں کی اعتماد بھر نمائندگی، ادبی سمیناروں کا معروف چہرہ، مہاراشٹر کی لوک کتھا کی مٹی سے جڑی مکمل کہانی کار "صادقہ نواب سحر"
کہانی کوئی سناُ متاشا "کے بعد صادقہ صاحبہ کا نام فکشن میں گونجا یہی وہ ناول تھا جس کا چرچا نہ صرف بھارت بھر میں ہوا بلکہ برصغیر کے سنجیدہ ناولوں میں تواتر کے ساتھ ہوا جس نے نہ صرف سنجیدہ قاری بلکہ منفرد لکھنے والے بھی متوجہ ہوے
صادقہ صاحبہ:-اپنے آس پاس کے کرداروں کو زبان عطا کرتی۔ ہیں بلکہ اُن کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو بھی اپنی پکی سیاہی میں جذب کرکے احساس قاری و ایک دنیا کے سامنے ان کے مسائل سے آگاہ کرتی۔ ہیں یہ بات تو طے ہے کہ صادقہ صاحبہ کو پڑھتے ہوے ہر قاری اُچھل ضرور جاتا ہے کہ ارے اس مسائل پر بھی کہانیاں لکھی جا سکتی ہیں اـس کو بھی فکشن کا حصہ بناکر عوام کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے
صادقہ صاحبہ کا حالیہ ناول "جس دن سے" ایک ایسا ہی جیتا جاگتا سانس لیتا زندگی کرتا ہمارے آس پاس کے کرداروں سے چنُا گیا ناول ہے جس پر صادقہ صاحبہ نے وہاں تک رسائی حاصل کی جہاں تک اکثر لکھنے والوں کی قلم کی دھوپ بھی نہیں جاتی
زندگی نامہ کا یہ ناول "جس دن سے" پڑھنے والا مطالعہ کرتے۔
چونک، چونک ضرور جاتا ہے کہ ارے یہ کہانی تو اُس کی ہے یہ کہانی تو "اپنی" ہے صادقہ کے ناول ہوں یا کہانی اُن کے کردار آس پاس بستے ہیں ہمارے درمیان سانس لیتے ہیں، زندگی کرتے ہیں اور پھر بےسیاہی کے ہی مر جاتے ہیں مگر صادقہ صاحبہ جیسی تیز نظر اور گہرا مشاہدہ اُنہیں کہانی یا ناول کے روپ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صفہ قرطاس پہ قید کر ہی لیتا ہے
           ناول "جس دن سے" بھی ایسا ہی ناول ہے جب کوئی خاندان ٹوٹ پھوٹ کی کگار پر ہو تو زندگی بکھیر جاتی ہے، اُس کی صورت بگڑ جاتی ہے
   زندگی بدصورت ہو جاتی ہے
ہر اٹھنے والے قدم کے نیچے کانٹے محسوس ہوتے ہیں جہاں جسم ہی نہیں انسانی روح اور احساس قاری بھی گھائل ہوجاتے ہیں درد بھرا تلخ سچائی کا بیاینہ ناول "جس دن سے" کا موضوع ہے
جس میں باپ اس لڑکے (ناول کا مرکزی کردار ) کو چھوڑ کر دو اور عورتوں سے شادی رچا لیتا ہے
   _____ایسے میں ماں کیا کرے__؟؟؟؟ 
سماج کی ضروریات کے ساتھ جسم کی بھی ضرورت ہوتی۔ ہے۔ سو وہ ماں بھی کسی دوسرے آدمی کے ساتھ رہنے لگتی ہے دونوں ماں باپ کے الگ الگ رشتوں سے الگ الگ اولادیں بھی ہیں اور یہاں سے ہی صادقہ نواب سحر "کا قلم اپنا جلوہ زندگی نامہ کی تصویر بڑی بےدردی سے پیش کرتا ہے جہاں کوئی بھی کمپرمیز نہیں ہے خاندان کی الجھین کے بعد ایک دنیا باہر کھڑی ہوتی ہے ___بےرحم__اور بےچہرہ دنیا ___ ناول چلتے چلتے کبھی کبھی گھر گھر کی کہانی کا آئینہ،بھی بن جاتا ہے اگر چہ خواتین یہ ناول پڑھیں تو ورق ورق، سطر سطر، پورے احساس اور حقیقی طور پر اس ناول کے تجربات اور اپنے خود کے مشاہدہ سے بھی گزاری ہو گی-کہیں نہ کہیں
مزکورہ ناول میں نا کوئی نظریہ ہے، نا کسی تحریک سے متاثر ہے بس زندگی کی شطرنج پہ کرداروں کے سیاہ سفید مہرے زندگی کے ساتھ اپنی اپنی چالیں چلتے چلے جاتے ہیں
   زندگی سے جہدوجہد کا ایسا بیاینہ جو تیڑھے میڑے الجھے رشتوں اور خار دار راستوں میں بھی زندگی تلاش ہی کر لیتا ہے
   ناول کا انتساب :-"صادقہ نواب سحر صاحبہ نے اپنی بیٹی "لبنیٰ" اور ناول کے مرکزی کردار "جیتو" کے نام اور اس جیسے بےشمار نوجوان کے نام کیا ہے (ناول کا کردار کا نام بھی علامتی طور پر" زندگی "ہی ہے )  
"جس دن سے" میں اعتماد بھر ناقد و منفرد کہانی کتھا کار "رتن سنگھ" نے بھی اپنی قیمتی راے دو صحفہ پر دی ہےجوکہ خود ایک دستخط ہے(ناول ایجوکیشنل پبکیشر سے دستیاب ہےدہلی)

صادقہ نواب سحر صاحبہ مہاراشٹر کے علاقہ کھپولی سے تعلق رکھتی ہیں نیز ہمہ وقت وہ ادب اور ادب نواز اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہتی ہیں مہاراشٹر کی لوک کتھا اور یہاں کے رہن سہن تہذیب اُن کی کہانیوں اور ناول میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اگر ہم انھیں مہاراشٹر کی مانگ میں کہانی کا "سندور" کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا برصغیر میں اُن کی کہانیاں ناول شاعری کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ناقدین فنَ کی نظروں میں اعتماد بھر پکی سیاہی کا نام "صادقہ نواب سحر" ہے
مزید آگے راستہ ہے
مسافر سفر میں ہے
صادقہ صاحبہ کے قلم سے نا جانے اور کتنی تلخ حقیقت کا اظہاریہ ٹپکتا رہے گا اور اردو ادب کو مالا مال کرتا رہے
     اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
بارہ ربیع الاول بروز جمعہ
شب10/25
⚫احمد نعیم مالیگاؤں بھارت🇮
___________:


مرثیۂ عارف

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور

مٹ جائے گا سر گر ترا پتھر نہ گھسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور

تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور

مجھ سے تمہیں نفرت سہی نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور

گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

مرزا غالب
________________

اختر عثمان : مرثیۂ نَو تصنیف

ورقِ مکتبِ اقلیمِ سخن کُھلتا ہے
صدفِ مہر بدنداں کا دہن کُھلتا ہے
باس اُڑتی ہے درِ باغِ عدن کُھلتا ہے
یک بہ یک نافۂ آہوئے ختن کُھلتا ہے
فکرِ تاباں سے جلا پا کے دمکتے ہیں نجوم
فلکِ فن پہ ہے مجلس کہ چمکتے ہیں نجوم

کوئی ہر گام پہ دیتا ہے تسّلی مجھ کو
کوئی رہ رہ کے دکھاتا ہے تجّلی مجھ کو
سب سمجھتے ہیں سخن کا متوّلی مجھ کو
فصحا کہتے ہیں زیبا ہے تعلی مجھ کو
کس کے ہاتھوں سے بھلا مصرعۂ برجستہ بندھے
انوری جیسے یہاں آئے گئے بستہ بندھے

وہ گداگر ہُوں کہ قبل اَز طلب آتا ہے مجھے
مانگنے کا جو سلیقہ ہے کب آتا ہے مجھے
بات کرنے کا فن آتا ہے، ڈھب آتا ہے مجھے
مرثیہ گوئی میں جو کچھ ہے سب آتا ہے مجھے
میں رواں جس پہ ہُوا ہوں روشِ عام نہیں
ہاں عطا اور ہے، انسان کا یہ کام نہیں

______________

*🔴سیف نیوز بلاگر*

کراچی میں 6 منزلہ رہائشی عمارت گرگئی ، 9 افراد جاں بحق ، متعدد زخمی کراچی: لیاری بغدادی میں 6 منزلہ رہائشی عمارت گرگ...