فرشتوں کے قاتل !
انسانی ارتقاء کی تاریخ لکھنے والے اکثر مورخین اس نظریے پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ انسانی ارتقا کا عمل کبھی کبھی الٹی جانب بھی گھومتا رہا ہے۔ انسانی جسمانی ساخت پر کی گئی تحقیقات میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ موجودہ انسانی جسم کی ساخت میں کئی رد و بدل ہوئے۔ انسان سماجی جانور کہلاتا ہے۔ جانور وں کو مختلف خانوں میں بانٹا گیا ہے۔ ان میں جنگلی اور پالتو جانوروں کا شمار ہوتا ہے۔ انسان اپنی حفاظت ، سفر کے ذرائع ، شوق اور شان و شوکت کے مد نظر جانور پالتا رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات شاذو نادر ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں جن میں پالتو جانور اپنے مالک کو کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچاتا ہے۔ جانور اور پرندے انسانوں کی صحبت میں رہ کر انسانی سماج کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ انسان جسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہے بعض اوقات اپنے اعمال سے خود کو جنگلی جانور سے بھی بدتر ثابت کردیتا ہے۔ چھوٹے بچوں کا اغواہ اور جنسی و جسمانی استحصال بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ قومی و بین الاقوامی سطح پر بچوں پر کئے جانے والے ظلم و استبداد کے خلاف سخت ترین قوانین بنائے گئے ہیں۔ لیکن سماج میں یہ برائی مختلف شکل میں پنپتی جا رہی ہے۔ بچوں سے منسلک جرائم کسی بھی سماج ، فرقے و طبقے میں واقع ہو سکتے ہیں۔حالیہ دنوں میں مہاراشٹر و دیگر ریاستوں میں چھوٹے بچوں پر کی گئی زیادتی اور بے رحمانہ قتل کے واقعات نے حساس طبیعیت افراد کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔ شہر کے کچھ نوجوان ہمہ وقت سماجی خدمات کے نیک اعمال میں مصروف پائے جاتے ہیں۔
ان میں قابل تحسین اقدام حادثات میں زخمی اور ہلاک ہونے والوں کی نعشوں کو اٹھانا ہے۔ اکثر مردہ جسم ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ عام انسان کا انہیں چھونا تو دور ، ان کے قریب جانا اور دیکھنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ اللہ کے یہ بندے ان نعشوں کو اٹھا کر ہاسپیٹل اور پوسٹ مارٹم کے مقامات تک پہنچانے میں اپنا تعاون پیش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے برسوں کا ان کا یہ تجربہ ان کے دلوں کو سخت بنا دیتا ہے۔ لیکن پچھلے دنوں شہر میں ایک معصوم کے ساتھ ہوئی بربریت کے بعد اس کے بے جان جسم کو اٹھا کر لاتے ہوئے ان جیالے نوجوانوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھ کلیجہ منھ کو آگیا۔ امید ہے بہت جلد اس گھناؤنے جرم کو انجام دینے والا انسان نما حیوان اپنے انجام کو پہنچے گا۔ حیرت انگیز طور پر اس طرح کے واقعات کی خبریں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ کسی ذاتی رنجش کی بنا پر انتقام کی آگ میں معصوم زندگیوں کو جھونک دینے جیسے واقعات خبروں کا عام سا حصہ بن گئے ہیں ۔ مگر پچھلے دنوں کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن پر حیوانات بھی لعنت کرینگے۔ قریبی رشتے داروں اور یہاں تک کہ اپنی کوکھ سے جنم دینے والی ماؤں نے سفاکیت کی تمام حدیں پار کردیں۔ ۲۳ جولائی ۲۰۲۳ء کو وشاکھا پٹنم کے منگلا پلیم کے علاقے میں اپنی 15 ماہ کی بچی کو قتل کرنے اور لاش کو دفنانے کے
الزام میں ایک 19 سالہ بی اسنیہا نامی خاتون اور اس کے دوست کو گرفتار کیا گیا۔ اپنے شوہر سے ایک ماہ پہلے ہی اس نے علیحدگی اختیار کی تھی۔ اسی مہینے ۸ جنوری کو سوچنا سیٹھ نامی خاتون کو گوا کے پنجی شہر سے گرفتار کیا گیا ۔ جنم دینے والی اسی ماں نے اپنے بچے کی چار سال کی عمر میں جان لے لی۔ ۲۲ سالہ عالیہ بسراوی نے اپنے دو معصوم بچوں کو ابدی نیند سلا دیا۔ توہم پرستی اور عقائد میں اندھے ہو کر بچوں کی جانیں قربان کر دینے کے اندوہناک واقعات سالوں سے پیش آتے رہے ہیں۔ امیر بننے کی لالچ میں پچھلے سال جنوبی دہلی کی لودھی کالونی میں دو لوگوں نے چھ سالہ بچے کی بلی چڑھا دی۔ اس طرح کے کئی واقعات اخبارات ، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچتے ہیں ۔ بے شک اس طرح کا گھناؤنا جرم کرنے والے افراد کو عبرتناک سزا ملنی چاہئے۔ لیکن غور طلب ہے کہ وہ کون سی نفسیات اور پس منظر ہے جو انسان کو فرشتہ صفت معصوم بچوں کے ساتھ بربریت پر اکساتا ہے۔ ورنہ تو اس طرح کے غیر انسانی فعل فطرت حیوان بھی نہیں ہے۔
تحریر : عامری عظمت اقبال 9970666785
شامنامہ ۲۰ جنوری ۲۰۲۴ء
________________
سمندر منتظر ہے (تعارف تبصرہ)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
ڈاکٹر سید فضل رب (ولادت یکم اپریل 1943ئ)ساکن
اسماعیل کاٹیج سیکٹر 2، ہارون نگر پھلواری شریف، پٹنہ، اعزازی ڈائرکٹر انسٹی چیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز ، پٹنہ چیپٹر، علمی دنیا کا ایک معتبر نام ہے، وہ تعلیمی اعتبار سے ایم اے (عمرانیات) ایم، ایل، آئی (لائبریری وانفارمیشن سائنس) بی، ایل، پی ایچ ڈی ہیں، نصف درجن سے زائد اداروں میں خدمات انجام دی ہیں اورکم وبیش ایک درجن اداروں سے بحیثیت رکن اعزازی طور پر جڑے رہے ہیں، پروجیکٹ ڈائرکٹر اور رابطہ کار کی حیثیت سے جو خدمات انہوں نے انجام دی ہے وہ اس پر مستزاد ہیں، درس وتدریس کا دائر ہ پٹنہ، مگدھ، نالندہ اوپن یونیورسیٹی تک پھیلا ہوا ہے، مختلف موضوعات پر انگریزی میں نصف درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں، مقالات، افسانے اور ناول کے اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں، درد کی آنچ ، پھر جس انداز سے بہار آئی، فاصلہ، مہابھیکاری وغیرہ ان کے مشہور افسانے ہیں، ایک ناول ’’سمندر منتظر ہے ‘‘ کا مجھے پتہ ہے جو زیر مطالعہ ہے۔
’’سمندر منتظر ہے‘‘ ناول کے پیرایہ میں ہے، اس میں ناول کے تمام اجزاء ترکیبی کو شعوری طور پر برتنے کی کوشش کی گئی ہے ، دو سو پنچانوے(295) صفحات پر مشتمل یہ ناول ہندو پاک کی تقسیم، نقل مکانی میں مہاجرین کے کرب والم اور خون کے دریا سے گذرنے کا بیانیہ ہے، ٹوٹتی محبتیں ، بکھرتے خاندان ، منقسم اقدار اور دم توڑتی تہذیبوں کا ماتم اور مرثیہ سب کچھ اس میں موجود ہے ، یہ داخلی کیفیات اور خارجی احوال وواقعات ومشاہدات کا آئینہ خانہ ہے، اس آئینہ خانہ کو سجانے، سنوارنے اور صیقل کرنے کے لیے جن کرداروں کو زندگی بخشی گئی ہے وہ ڈاکٹر فضل رب کے سحر نگار قلم سے چلتی ، پھرتی، اچھلتی، کودتی ، بل کھاتی نظر آتی ہیں، ناول واقعہ نگاری، ماجرا نگاری، سراپا نگاری کا مرقع ہوتا ہے، ڈاکٹر فضل رب نے ان تینوں امور پر اپنے قلم کی جولانیاں صرف کی ہیں اور اس کے ہر کردار کو زندہ وجاوید بنادیا ہے، ناول میں گاؤں کی زندگی اور شہروں کی بود وباش کے موازنہ اور فکری اختلاف نے اس ناول کو وسیع کینوس عطا کر دیا ہے، رحمت نگر، منشی نگر، سمندر، شاہد، محسن، مشفق، ریاض، مسجد، سجدے اور عبادت یہ جامد الفاظ نہیں ہیں ، ان کے پیچھے معنوی علامت کی ایک دنیا ہے واقعہ یہ ہے کہ ناول کی فکری جہتوں کی وسعتوں کو سمیٹنا اسے الفاظ میں بند کرنا، اس کی گہرائیوں تک پہونچنا سرسری مطالعہ سے ممکن نہیں ہے، کچھ کرداروں کی زبانی اورکچھ پلاٹ کی ترتیب سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مصنف روز بروز تہذیبی انحطاط ، اخلاقی زبوں حالی اورمتضاد تہذیبوں کے تصادم کے نتیجے میں جو نقصان ہو رہا ہے اس سے بچانا چاہتا ہے اور حالات کی نا مساعدت کے باوجود ان امتیازات کی حفاظت کوفرض سمجھتا ہے، مصنف ایمان والا ہے اس لیے بڑے مشکل حالات میں بھی ناول کے کسی کردار سے یاس وقنوطیت کا درس قاری میں منتقل نہیں کرتا ، بلکہ وہ ہر دم رجائیت کا علم تھامے ہوا ہے، اور قاری اس کے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہونچتا ہے کہ رات کی جو سیاہی پھیلتی جا رہی ہے اس کے دوسرے سرے پر نمود صبح کا مزدہ ہے،جو مشاہداتی بھی ہے اور تجرباتی بھی۔
اس ناول کو پڑھنے سے وطن کی محبت اور پردیس کا غم والم اور درد وکرب بھی سامنے آتا ہے، پردیس میں رہ کر شاہد وطن کی یادوں میں کھویا رہتا ہے اور جب وہ برسوں
بعد اپنے وطن واپس ہوتا ہے تو اس کی دلی کیفیات کا بیانیہ مطالعاتی بھی ہے اور دیدنی بھی ، کیفیات کی دید ذرا مشکل کام ہے، لیکن جب خوشیاں چہرے پر رقصاں ہوں اور دل مسرت سے بلیوں اچھل رہا ہو تو کیفیات مشاہدات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔مصنف نے اس ناول میں شاہد کے جذبات کو الفاظ کی زبان بخش دی ہے، جو زبان حال سے بولتے ہیں اور زبان حال کی باتیں دلوں تک منتقل ہوا کرتی ہیں، واپسی میں جب شاہد ایر پورٹ کی زمین کو چومتا ہے تو وہ اس کی وطن سے محبت کا استعارہ معلوم ہوتا ہے، وہ مسلمان ہے اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے وطن کے ذرہ کو دیوتا سمجھتا ہے، وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن چومنا ، بوسہ دینا محبت کی علامت ہر دور میں رہی ہے شاہد بھی زمین کو چوم کر اپنی عقیدت اور تعلق کا اظہار کرتا ہے۔
ناول کا اختتام اس پر ہوجاتا ہے،لیکن قاری کے ذہن میں کئی سوالات چھوڑ جاتا ہے، یہ سوالات تہذیب کی شکست وریخت ، اشراف ارذال کی غیر اسلامی تقسیم، ذات برادری کی بنیاد پر اونچ نیچ کا تصورہے ، قاری یہ سوچتا ہے کہ کیا ہندوستان سے کبھی ختم ہوگا، نفرت کی گرم بازاری میں کیا محبت کے پھول کھل سکیں گے، کیا سنہا جی جیسے لوگ اپنی مکھ اگنی کے لیے اپنے بیٹا کے علاوہ رحیمن کو نامزد کر سکیں گے، ان سوالات کے جوابات کے لیے بر سوں انتظار کرنا ہوگا، اس ناول کا جو قاری ہے وہ بھی سمندر کی طرح منتظر ہے۔
کتاب کی طباعت، کاغذ اور سرورق پُر کشش ہے اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کی مالی معاونت سے چھپی اس کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے، بک امپوریم سبزی باغ، پٹنہ سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے، کمپوزنگ عطا ء الرحمن ، نظر ثانی تنویر اختر رومانی جمشید پور، مطبع روشان پرنٹرس دہلی اور ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ہے، کتاب کے انتساب کے جملے معنی خیز ہیں اوروہ یہ ہیں، ’’اس فیصلے کے نام جس نے اس بر صغیر کے لوگوں کو بے اماں کر دیا، لیکن جس اماں کی خاطر کھودیا تھا اپنے ’’سمندر‘‘ کو تلاش اماں کی وہی تشنگی ہنوز باقی ہے‘‘۔
کتاب کے ٹائٹل سے اس انتساب کی معنویت زیادہ واضح ہوتی ہے، سمندر کی طغیانی کے باوجود اوپر کے حصے میں لہلہاتے سبزہ زار اور بالکل سرورق پر اگتا ہوا ماہتاب، اس رجائیت کی تصویر ہے جو اس ناول کے مصنف کے قلب ودماغ کا حصہ ہے ۔
ادبی اصناف کے بارے میں میرا خیال ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ہیئت سے زیادہ یہ بات اہم ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے، اگر بات سچی کہی جا رہی ہے تو ہیئت کی معنویت ثانوی ہے، فکر میں کجی ہو تو تمام اصناف نا قابل توجہ ہیں، اگر فکر کا قبلہ درست ہے تو افسانے، ناول، انشائیے، شاعری سب قابل قبول ہیں، فکری جہتوں کی تعیین کے بعد ہی فنی ارتقاء کو قابل اعتنا سمجھنا چاہیے، مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر سید فضل رب نے اس ناول میں فکری اور فنی دونوں جہتوں کا خیال رکھا ے، یہی اس ناول کے مطالعہ کا جواز ہے اور یہی میرے تبصرے کی بنیاد بھی۔
اللہ رب العزت ڈاکٹر سید فضل رب کو صحت وعافیت کے ساتھ درازیٔ عمر عطا فرمائے اور ان کے قلم کی جولانیوں کو استمرار اور دوام بخشے۔ آمین
__________
*کس گھر میں ایسا ہوتا ہے*
(شکیل حنیف ۔ مالیگاؤں)
😭😭😭😭😭
جس دن مسجد کو کھویا تھا
اس دن میں خوب ہی رویا تھا
لیکن یہ آج جو جاری ہے
اس دن اس رات پہ بھاری ہے
جس قوم نے مندر پایا ہے
اس نے یوں جشن منایا ہے
مغموم ہوں میں رنجور ہوں میں
یعنی زخموں سے چور ہوں میں
فاتح کا جشن تو جائز ہے
پر جو کرسی پر فائز ہے
وہ جو عہدوں کے حامل ہیں
وہ بھی کیوں اس میں شامل ہیں
یعنی جو ہمارے پی ایم ہیں
اسٹیٹوں کے جو سی ایم ہیں
وہ جشن منائیں ٹھیک ہے کیا
دل میرا جلائیں ٹھیک ہے کیا
ہم سب کے ہی پردھان ہیں وہ
پرجا کے پتا سمان ہیں وہ
پھر پرجا میں کیوں بھید ہے یہ
انصاف کے تن میں چھید ہے یہ
اک ناچ رہا اک روتا ہے
کس گھر میں ایسا ہوتا ہے
____________
🔴 منتظِم عاصی مالیگاؤں، کل بروز جمعہ ٢٦مئی ٢٠٢٣ ان کے شعری مجموعہ "دیدہ باید" کا اجراء ہے ابھی دوپہر میں ایک ملاقات اور کچھ تازہ غزل و نثری منظر نامہ پر ایک گفتگو
🔴غزل
ہر کار دار عمر کا حاصل اداس ہے
اسرارِ مہر و مہ رگِ عادل اداس ہے
مسرور ہر کلی ہے مہک گُل کی ہے سَرا
موسم وصال کا ہے مگر دل اداس ہے
مسعود کم سواد، ارادہ کسک مسک
محسوس ہو رہا ہے کہ سائل اداس ہے
اِہلاک رسم و راہ ردائے سَرا ہوئے
معلوم آسماں کو ہے واصل اداس ہے
مسلم اصولِ مہرِ صمد لا کمال سے
عالم عمل سے دور ہے عامل اداس ہے
لعل و گُہر اساسِ "لا اسمٰ لَہُ" مگر
کامل الم ہے درد ہے ساحل اداس ہے
عاصی ہراسِ دار سے محروم ہے مگر
اکرامِ رسمِ دار سے حامل اداس ہے
منتظِم عاصی مالیگاؤں
____________::'' '' '______
. ..انتخاب. رفیق سرور مالیگاوں...
غم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
سایہء وصل کب سے ہے آپ کا منتظر مگر
ہجر میں جل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مَل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
وقت نے آرزو کی لَو دیر ہوئی بجھا بھی دی
اب بھی پگھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
زحمتِ ضربتِ دگر دوست کو دیجئے نہیں
گر کے سنبھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
دائرہ دار ہی تو ہیں عشق کے راستے تمام
راہ بدل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
دشت کی ساری رونقیں خیر سے گھر میں ہیں تو کیوں
گھر سے نکل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
اپنی تلاش کا سفر ختم بھی کیجیے کبھی
خواب میں چل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
پیرزادہ قاسم