متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کومتنازع ڈھانچہ قراردینے سے الہ آبادہائی کورٹ کا انکار،ہندو فریق کولگاجھٹکا
متھرا کے کرشن جنم بھومی اور شاہی عید گاہ مسجد تنازع سے جڑی بڑی خبر ہے۔الہ آباد ہائی کورٹ سے ہندو فریق کو جھٹکا لگاہے۔ عدالت نے شاہی عیدگاہ مسجد کو متنازع ڈھانچہ قراردینے سے انکار کردیا ہے۔جسٹس رام منوہر نارائن مشرا کی سنگل بینچ نے فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے سے ہندو فریق کو بڑا جھٹکا لگا ہے جبکہ تاہم شاہی عیدگاہ مسجد کا فریق اسے اپنی بڑی جیت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
خیال رہے کہ ، ہائی کورٹ نے گزشتہ سماعت میں بحث مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھاتھا۔ جسٹس رام منوہر نارائن مشرا کی سنگل بنچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔ تاہم، چونکہ ہائی کورٹ نے شاہی عیدگاہ مسجد کو متنازع ڈھانچہ قرار نہیں دیا ہے، اس لیے اس فیصلے کا دیگر عرضیوں پر راست طور پرکوئی اثر نہیں پڑے گا۔
دراصل ہندو فریق کے مدعی ایڈوکیٹ مہندر پرتاپ سنگھ نے یہ عرضی داحل کی تھی۔ انھوں نے عدالت میں مسارے عالم گری کی لکھی کتاب سے لے کرمتھرا کے کلکٹر ایف ایس گروس تک کے وقت کی تصنیف کردہ کتب کا حوالہ عدالت میں دیا تھا۔
آج ہندو فریق نے بھی ہندو چیتنا یاتراؤں کے حوالے سے ہائی کورٹ میں جواب داخل کیا۔ مسلم فریق نے شری کرشن جنم بھومی مکتی نیاس کی طرف سے نکالی جانے والی ہندو چیتنا یاترا پر اعتراض جتایا تھا۔
الہ آباد ہائی کورٹ گھگوان کرشن وراجمان کٹرا کیشو دیو سمیت دیگر معاملات کی سماعت کر رہی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ ایودھیا تنازع کی طرزپر ایک ساتھ کیس سے متعلق ڈیڑھ درجن عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔مقدمات میں شاہی عیدگاہ پر سے قبضہ ہٹانے اور کٹرا کیشو دیو کے نام پر درج اراضی کو شری کرشنا مندر کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ شاہی عیدگاہ مسجد کی ڈھائی ایکڑ اراضی بھگوان شری کرشن کی جائے پیدائش یعنی گربھ گرہ ہے، جب کہ مسلم فریق کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد ایک جائز مذہبی مقام ہے۔
روس نے طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کرلیا – افغان سفارتکاری میں نیا باب
روس نے 3 جولائی 2025 کو طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا، یوں وہ ایسا کرنے والا پہلا ملک بن گیا اور اس اقدام سے خطے میں ایک بڑی سفارتی تبدیلی کا اشارہ ملا ہے۔ یہ اعلان کابل میں روسی سفیر دمتری ژرینوف اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد کیا گیا۔ افغان حکام نے اسے ایک “تاریخی قدم” اور دو طرفہ تعلقات کے ایک نئے دور کی شروعات قرار دیا ہے۔ تاہم، اس تسلیم کی اہمیت ابھی بھی پیچیدہ ہے کیونکہ طالبان کو عالمی سطح پر باضابطہ قبولیت اقوام متحدہ اور عالمی رائے عامہ پر منحصر ہے۔نیوز 18 کے ذرائع کے مطابق روس کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ایک مثبت قدم ضرور ہے، مگر یہ اب بھی مکمل بین الاقوامی قانونی حیثیت سے کم تر ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے پروٹوکول ڈویژن سے باقاعدہ منظوری ضروری ہے، اور جب تک ایسا نہیں ہوتا، طالبان حکومت کو سفارتی تنہائی کا سامنا رہے گا۔ یہ پیش رفت ایک وسیع تر رجحان کا حصہ ہے، جس میں بیشتر ممالک اپنے مفادات کے تحفظ اور علاقائی استحکام کے لیے طالبان کے ساتھ مختلف سطحوں پر رابطے میں ہیں۔
بھارت کی محتاط مگر حقیقت پسندانہ پالیسی:
بھارت نے طالبان حکومت کے حوالے سے ایک محتاط لیکن حقیقت پسندانہ حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اگرچہ نئی دہلی نے طالبان حکومت کو رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن اس نے کابل میں اپنا سفارتی مشن دوبارہ فعال کیا ہے اور طالبان کو ممبئی میں قونصل جنرل بھیجنے کی اجازت دی ہے۔ حال ہی میں بھارتی خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے طالبان نمائندوں سے بات چیت کی، جو کہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اب تک کی سب سے اعلیٰ سطح کی ملاقات تھی۔ بھارت کی یہ سفارتکاری سکیورٹی خدشات، چین سے علاقائی اثر و رسوخ کی مسابقت اور افغانستان پر کنٹرول برقرار رکھنے کی خواہش سے تحریک پاتی ہے۔
پس منظر: طالبان کی اقتدار میں واپسی
طالبان نے 15 اگست 2021 کو افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا، جب امریکہ اور نیٹو افواج نے ملک سے انخلا کیا۔ اس کے بعد سے طالبان بین الاقوامی سطح پر قبولیت کے خواہاں رہے ہیں، جبکہ ملک میں سخت اسلامی قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی بھی ملک طالبان حکومت کو رسمی طور پر تسلیم نہیں کر رہا تھا، یہاں تک کہ روس نے حالیہ قدم اٹھایا۔ البتہ چین، بھارت، اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک مختلف سطحوں پر طالبان کے ساتھ سفارتی روابط میں ہیں۔
روس کی سفارتی پالیسی کی تبدیلی:
روس اور طالبان کے تعلقات گزشتہ دو دہائیوں میں بڑی تبدیلیوں سے گزرے ہیں۔ 2003 میں روس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا کیونکہ وہ شمالی قفقاز میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کرتے تھے۔ تاہم، 2021 میں طالبان کے دوبارہ ابھرنے اور عالمی طاقتوں کے بدلتے رویوں نے ماسکو کو اپنے مؤقف پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا۔ اپریل 2025 میں روس کی سپریم کورٹ نے طالبان کو ممنوعہ تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا، جس سے باضابطہ تسلیم کی راہ ہموار ہوئی۔
اعلان اور اس کا مفہوم:
روسی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ افغانستان کے نئے مقرر کردہ سفیر گل حسن حسن کی اسناد قبول کر لی گئی ہیں، اور اس کے ساتھ “بامعنی دو طرفہ تعاون” کا آغاز ہو گیا ہے۔ وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ قدم توانائی، زراعت اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دے گا۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور اسے دیگر ممالک کے لیے “ایک اچھا نمونہ” قرار دیا، اور امید ظاہر کی کہ اس سے عالمی سطح پر مزید شمولیت کی راہ ہموار ہو گی۔روس نے طالبان کو کیوں اپنایا؟
دفائی مفادات
روس کا یہ قدم عملی حکمت عملی پر مبنی ہے۔ ماسکو طالبان کو ایک زمینی حقیقت تسلیم کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ان سے بات چیت ضروری ہے تاکہ وسطی ایشیا میں اپنے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ کریملن کو داعش خراسان (ISKP) سے شدید خطرہ لاحق ہے، جس نے افغانستان اور روس دونوں میں حملے کیے ہیں۔ طالبان کو تسلیم کر کے، روس امید رکھتا ہے کہ سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے میدان میں تعاون بڑھے گا۔
معاشی مواقع
روس افغانستان میں توانائی، ٹرانسپورٹ اور زراعت جیسے شعبوں میں معاشی مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے تجارتی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی جانب اشارہ کیا جو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ یہی معاشی امکانات روس کو طالبان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔
علاقائی اثر و رسوخ
طالبان کو سب سے پہلے تسلیم کر کے روس افغانستان کے مستقبل میں ایک مرکزی کھلاڑی بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ فیصلہ دیگر ممالک کے لیے نظیر قائم کرنے کے ساتھ ساتھ، روس کے سفارتی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش بھی ہے۔ یہ قدم روس کی اس وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں وہ مغرب کی جانب سے تنہا کیے گئے حکومتوں سے تعلقات قائم کرتا ہے۔
تسلیم کیے بغیر روابط: عالمی سفارتی حکمت عملی
چین کی محتاط سفارتکاری
چین بھی طالبان سے مختلف سطحوں پر روابط رکھتا ہے۔ بیجنگ نے طالبان سفیروں کو قبول کیا ہے اور انہیں چین میں افغان سفارت خانے کا کنٹرول دیا ہے، مگر ابھی رسمی تسلیم سے گریز کر رہا ہے۔ چین کی یہ پالیسی معاشی مفادات، سکیورٹی خدشات اور اس تاثر سے بچاؤ پر مبنی ہے کہ وہ طالبان کی متنازعہ پالیسیوں کو تسلیم کرنے والا پہلا بڑا ملک نہ بنے۔
دیگر ممالک کا رویہ
ترکی، ایران اور پاکستان جیسے ممالک نے طالبان کے ساتھ سفارتی روابط قائم کیے ہیں، لیکن باضابطہ تسلیم سے گریز کیا ہے۔ ان کے یہ روابط اکثر علاقائی، سکیورٹی یا معاشی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں، مگر ابھی تک مکمل سفارتی حمایت نہیں دیتے۔
احمد آباد طیارہ حادثہ:معاوضے کولے کردھمکا رہا ایئرانڈیا...،متاثرین کاسنگین الزام ، کیا ہے کمپنی کا موقف؟
پچھلے مہینے 12 جون کو احمد آباد میں ایئر انڈیا کا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا تھا۔طیارہ حادثے کی جانچ ابھی جارہی ہے ۔ اس بیچ اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ نے ایئر انڈیا پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ اہل خانہ نے ایئر انڈیا پرالزام لگایا ہے کہ ایئر لائنز انہیں مالی انحصار سے متعلق دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کر رہا ہے تاکہ معاوضے کی رقم کو کم کیا جا سکے۔
وہیں ، ایئر لائنز نے مہلوکین کے لواحقین کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ایئر لائنز صرف معاوضے سے متعلق عمل پر عمل درآمد کررہا ہے۔ ایئر انڈیا کے ذرائع کے مطابق، ان کی طرف سے بھیجے گئے سوال نامے کا مقصد صرف خاندانی تعلقات کی تصدیق کرنا ہے، تاکہ مستحقین میں معاوضے کی تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک رسمی عمل ہے، جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایئر لائنز متاثرہ خاندانوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ سوال نامہ بذریعہ ای میل یا ذاتی طور پر جمع کیا جا سکتا ہے اور بغیر اجازت متاثرہ کے گھر یا ان کے رشتہ داروں کی رہائش گاہ کا دورہ نہیں کیا جائے گا۔ ایئر انڈیا کے ذرائع کے مطابق اس کے لیے الگ الگ ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو آخری رسومات، رہائش اور دیگر انتظامات میں اہل خانہ کی مدد کر رہی ہیں۔
برطانیہ کی ایک لیگل فرم نے لگائے الزامات
ایئرلائنز کے مطابق اب تک 47 خاندانوں کو پیشگی ادائیگی کی جا چکی ہے اور 55 خاندانوں کو ادائیگی کا عمل جاری ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ 40 سے زیادہ متاثرہ خاندانوں کی نمائندگی کرنے والی برطانیہ کی ایک قانونی فرم نے ایئر انڈیا پر الزام لگایا ہے کہ ایئر لائنز اس سوالنامے کے ذریعے خاندانوں پر مالی معلومات ظاہر کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ فرم نے کہا ہے کہ سوالنامے میں کئی قانونی اصطلاحات ہیں جن کی کوئی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔سوال نامے میں اہل خانہ سے مانگی گئی ہیں یہ معلومات
ان کا دعویٰ ہے کہ ان سوالات سے حاصل ہونے والی معلومات کو بعد میں اہل خانہ کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وکلاء کا یہ بھی کہنا ہے کہ اہل خانہ کو شدید گرمی میں قانونی مشورے کے بغیر فارم بھرنے پر مجبور کیا گیا، جس میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مالی طور پر متوفی پر منحصر ہیں؟ یہ سوال معاوضے کی رقم کو متاثر کر سکتا ہے۔ خیال رہے کہ 12 جون 2025 کوایئر انڈیا کا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں ایک مسافر کے علاوہ تمام 241 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ٹاٹا گروپ نے مہلوکین کے لواحقین کو ایک کروڑ روپے کے معاوضے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ تعلیم، صحت اور بازآبادکاری کے لیے 500 کروڑ روپے کا ٹرسٹ قائم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔