غزہ ایک بار پھر فضائی حملوں سے لرز اٹھا، 94 افراد جاں بحق، اسرائیلی فوج نے خاموشی اختیار کر لی
غزہ، فلسطین: غزہ میں ایک بار پھر اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ فضائی حملہ کیا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ فضائی حملے جمعرات کی رات بھر ہوئے۔ غزہ میں راتوں رات ہونے والے حملوں اور فائرنگ کے نتیجے میں 94 فلسطینی جاں بحق ہو گئے، جن میں 45 ایسے تھے جو انتہائی ضروری انسانی امداد پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے، اسپتالوں اور وزارت صحت نے یہ اطلاع دی۔اسرائیلی فوج نے فوری طور پر حملوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا
اس دوران اس سے قبل کم از کم 94 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ اس میں 38 لوگ امداد کے منتظر تھے۔ تاہم اس حملے کے حوالے سے اسرائیلی فوج کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ اس سے قبل اتوار کو بھی غزہ کی پٹی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس دوران کئی لوگ مارے گئے۔ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے ساتھ منسلک سائٹس کے باہر پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔بے گھر فلسطینی پناہ گزین خیموں پر بمباری
بدھ کی رات اور جمعرات کی صبح پٹی پر بمباری کرنے والے فضائی حملوں میں درجنوں افراد مارے گئے، جن میں 15 افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے وسیع و عریض مواسی زون میں خیموں کو نشانہ بنایا، جہاں بہت سے بے گھر فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ غزہ شہر میں بے گھر افراد کو پناہ دینے والے ایک اسکول پر الگ حملے میں بھی 15 افراد ہلاک ہوئے۔ کی پٹی میں فضائی حملے میں غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن سے وابستہ مقامات پر بھی پانچ افراد مارے گئے ہیں۔ جب کہ دیگر مقامات پر خوراک اور دیگر امدادی اشیاء کے منتظر 33 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں ٹرکوں کے ذریعے لوگوں تک امدادی سامان پہنچایا جاتا ہے۔ اس میں خوراک اور تمام ضروری اشیاء شامل ہیں۔شہری دفاع کے افسر المغیار نے حملے کے بارے میں معلومات دی
شہری دفاع کے افسر محمد المغیار نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "مغربی غزہ کے علاقے الرمل میں واقع مصطفیٰ حافظ اسکول پر اسرائیلی فضائی حملے میں 12 افراد ہلاک ہو گئے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ حملے کے دوران بڑی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔" اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تھا۔اسرائیل نے اس سے قبل اتوار کو غزہ کی پٹی پر حملہ کیا تھا۔ اس دوران کم از کم 21 فلسطینی مارے گئے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ شہر اور شمالی علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیوں میں شدت کے درمیان ان علاقوں کو خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔ غزہ میں شہری دفاع کے ترجمان محمود بسال کے مطابق اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے انکلیو کے مختلف علاقوں میں بے گھر افراد کے گھروں اور خیموں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 17 افراد ہلاک ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔
مومن خان مومن: وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو -
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیش تر وہ کرم کہ تھا میرے حال پر
مجھے سب یاد ہے ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے وہ شکایتیں، وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے جو سب میں روبرو تو اشاروں ہی میں گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلہ ملامتِ اقرباء تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی ایسی بات ہوئی اگر کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی
تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
’کانٹا لگا گرل‘: شیفالی کی اچانک موت کے بعد بڑھتی عمر کے اثرات کو کم کرنے والے طریقہ علاج پر بحث
سنہ 2002 میں بالی وڈ کے معروف گیت ’کانٹا لگا‘ کے ری مکس سے معروف ہونے والی ماڈل اور اداکارہ شیفالی زریوالا کی محض 42 سال کی عمر میں اچانک موت کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہے تاہم اس کے بار ے میں بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں۔
اُن کی موت کی تحقیقات کرنے والے کچھ پولیس افسران نے کہا ہے کہ شیفالی بہت سی دوائیں لے رہی تھیں جس میں اینٹی ایجنگ گولیاں (بڑھتی عمر کے اثرات کو کم کرنے والی ادویات) بھی شامل تھیں اور غالباً یہ دوائیں خالی پیٹ لینے کی وجہ سے ان کا بلڈ پریشر اچانک گِر گیا۔انڈین خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ نے ایک پولیس افسر کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ 27 جون کی دوپہر کو شیفالی نے ایک اینٹی ایجنگ انجکشن لگوایا تھا۔
پولیس افسر نے ابتدائی تفتیش کے حوالے سے پی ٹی آئی کو بتایا کہ اِس کے بعد ’اُن کا بلڈ پریشر تیزی سے کم ہوا اور وہ کانپنے لگیں جس کے بعد اہلخانہ انھیں ہسپتال لے گئے۔‘شیفالی کو 27 جون کو ’اندھیری‘ کے بیلیوو ملٹی سپیشلٹی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے انھیں مردہ قرار دیا۔ پولیس کو دیر رات ایک بجے ان کی موت کی اطلاع دی گئی اور اس کے بعد ان کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ممبئی کے ہسپتال بھیج دیا گیا۔
پولیس کے مطابق: ’پولیس نے اب تک ان کی موت کے متعلق 10 لوگوں کے بیانات قلمبند کیے ہیں، جن میں شیفالی کے شوہر اور والدین کے ساتھ ساتھ گھر میں کام کرنے والے ملازمین بھی شامل ہیں۔ وہ سب اُس وقت گھر پر تھے۔ تاہم اب تک کچھ بھی مشتبہ نہیں ملا ہے۔ تحقیقات کے سلسلے میں پولیس کی ایک ٹیم فرانزک ماہرین کے ساتھ اُن کے گھر گئی اور بہت سی چیزوں کے نمونے اکٹھے کیے۔ اس میں شیفالی کی دوائیاں اور انجیکشن بھی شامل ہیں۔‘
اگرچہ شیفالی کی موت کا تعین ہونا ابھی باقی ہے مگر اسی کے بیچ انڈیا اور پاکستان میں یہ بحث تیز ہو گئی ہے کہ اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹ سے کون سے خطرات وابستہ ہو سکتے ہیں۔
معروف اداکاراؤں نے کیا کہا؟شیفالی کی موت کے بعد اداکارہ ملیکا شیراوت نے انسٹاگرام پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اپنے مداحوں کو ’صحت مند طرز زندگی‘ اپنانے کا مشورہ دیا۔
انھوں نے کہا: ’میں نے کوئی فلٹر استعمال نہیں کیا، کوئی میک اپ نہیں کیا۔ میں نے اپنے بال بھی نہیں سنوارے۔ میں یہ ویڈیو آپ سب کے ساتھ شیئر کر رہی ہوں تاکہ ہم سب مل کر بوٹوکس، مصنوعی کاسمیٹک فلرز کو ناں اور ایک صحت مند طرز زندگی کو ہاں کہہ سکیں۔‘
دوسری جانب ایک انٹرویو میں اداکارہ کرینہ کپور نے کہا کہ ’میں بوٹوکس کے خلاف ہوں۔‘
تاہم وہ صرف اداکاراؤں کے لیے بڑھتی عمر کے ساتھ بڑھتے ہوئے چیلنجز پر بات کر رہی تھیں اور ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ بھی جھریوں اور بڑھاپے سے ڈرتی ہیں؟
اس کے جواب میں کرینہ نے کہا کہ ’میں بوٹوکس کے خلاف ہوں، مگر میں اپنی صحت کی حفاظت کے حق میں ہوں، جس کا مطلب ہے صحت مند رہنا، اچھا محسوس کرنا اور قدرتی علاج۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ چھٹیاں منائیں، فیملی اور دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں، سیٹ پر آپ جو کچھ کرتے ہیں اس سے مختلف کریں نہ کہ انجیکشنوں اور سرجریوں میں الجھیں۔‘
تاہم ان دونوں اداکاراؤں نے اپنے بیان میں شیفالی کا ذکر نہیں کیا تاہم اُن کی موت کے بعد ان دونوں اداکاراؤں کے بیانات کو ان کی موت سے جوڑا جا رہا ہے۔
اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹ کیا ہے؟
جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے چہرے پر ناصرف جُھریاں نمودار ہونے لگتی ہیں بلکہ چہرے کی جلد بھی آہستہ آہستہ ڈھلکنے لگتی ہے۔ لیکن بڑھتی عمر کے ان اثرات کو کم کرنے کے لیے آج کل کاسمیٹک سرجری، انجیکٹیبل فلرز، بوٹوکس وغیرہ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔
اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹ کچھ ادویات یا دواؤں اور مرکبات کے امتزاج سے کیا جاتا ہے جو بڑھاپے کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
ان میں سب سے زیادہ مقبول بوٹوکس ہے جو کہ ایک طاقتور انجکشن ہے جو ہمارے پٹھوں کے بہت چھوٹے حصے کو ریلیکس کرتا ہے۔ بوٹوکس کا استعمال پیشانی کی لکیروں یا آنکھوں کے گرد حلقوں، ناک کے گرد جھریوں کو کم کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
انڈیا میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے 20 سال سے زیادہ عرصہ پہلے ہی کاسمیٹک طریقہ کار میں اس کے استعمال کی منظوری دی تھی۔
دی ایستھیٹک کلینک کے سینیئر کاسمیٹک سرجن ڈاکٹر دیبراج شوم نے ایک ہندی نیوز ویب سائٹ ’دی للن ٹاپ‘ کو بتایا کہ ڈرمل فلرز ایسے انجیکشن ہیں جو جلد کے اندر لگائے جاتے ہیں۔ یہ اسی مادے سے بنتے ہیں جس سے ہماری جلد کے خُلیات بنتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ عمر کے ساتھ جلد میں کولیجن کم ہونے لگتا ہے لیکن فلرز کی مدد سے کولیجن واپس آ جاتا ہے اور چہرہ جوان نظر آنے لگتا ہے۔بہت سے لوگ اینٹی ایجنگ کے لیے گلوٹاتھیون انجیکشن بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک اینٹی آکسیڈنٹ ہے جو ہمارے جسم کے خلیوں کو عمر کے ساتھ پہنچنے والے نقصان کو روکنے میں مدد کرتا ہے۔ گلوٹاتھیون اکثر نسوں کے انجیکشن اور گولیوں کے ذریعے لیا جاتا ہے۔
ڈرمیٹالوجی کی سینیئر کنسلٹنٹ ڈاکٹر انجو جھا کا کہنا ہے کہ ’گلوٹاتھیون ہمارے جسم میں پہلے سے موجود ہے، لیکن عمر کے ساتھ جسم گلوٹاتھیون کی پیداوار کو کم کرتا ہے، اس لیے اسے بیرونی ذرائع سے لیا جاتا ہے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ گلوٹاتھیون لینے والوں کی جلد کی رنگت کچھ بہتر ہوتی ہے۔ لیکن اگر نس کے ذریعے اسے لیا جائے تو اس کے نتائج اور بھی بہتر ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے ضمنی اثارت بھی ہیں اور اسے ایف ڈی اے سے منظوری بھی حاصل نہیں ہے۔‘
یہ علاج کتنا محفوظ ہے؟کیا یہ فلرز یا گلوٹاتھیون انجیکشن اتنے خطرناک ہو سکتے ہیں کہ کسی کی جان لے سکتے ہیں؟
’انڈین ایکسپریس‘ سے بات کرتے ہوئے دہلی کے سر گنگا رام ہسپتال میں جلد کے امراض کے شعبے کے چیئرمین ڈاکٹر رشی پراشر کہتے ہیں کہ ’کچھ مستثنیات کو چھوڑ کر، ایسے انجیکشن اب تک محفوظ ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھیں رجسٹرڈ ڈرمیٹولوجسٹ کی تشخیص اور نگرانی میں لیا جانا چاہیے۔‘
اس کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بوٹوکس کے خطرات پر بحث اپریل 2024 میں اس وقت تیز ہوئی جب یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن (سی ڈی سی) نے ایک وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا کہ 25 سے 59 سال کی عمر کی 22 خواتین میں بوٹوکس کے نقصان دہ رد عمل دیکھے گئے جن میں سے 11 کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑا اور چھ افراد میں یہ دیکھا گیا کہ بوٹوکس کے لیے دیے گئے ٹاکسنز پھیل کر ان کے نروس سسٹم تک پہنچ گئے۔ یہ ایسی حالت ہے جو موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
اس پر ڈاکٹر پراشر نے کہا کہ بعدازاں یہ ثابت ہوا کہ ان تمام خواتین نے بغیر لائسنس یا غیر تربیت یافتہ لوگوں سے انجکشن ایسے مقامات پر لگوائے جہاں صحت کے مراکز تک نہیں تھے۔ان ادویات کے خطرات پر ڈاکٹر انجو جھا کہتی ہیں کہ ’ایف ڈی اے نے گلوٹاتھیون کو اس لیے منظور نہیں کیا کیونکہ اس کے کچھ مضر اثرات دیکھے گئے ہیں۔ کچھ مریض اس کی وجہ سے انفیلیکشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انجیکشن لگانے والی دوائیں سٹیون جانسن جیسی بیماریاں پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ ایسی حالتیں ہیں جو دواؤں کے ردعمل سے پیدا ہوتی ہیں، جن میں موت کا خدشہ تو ہے لیکن یہ شاذو نادر کے زمرے میں آتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ جو لوگ جلد کو چمکدار بنانے یا جلد کو صاف ستھرا بنانے کے لیے ان ادویات کا استعمال کرتے ہیں، ان پر اس کا اثر تب ہی پڑتا ہے جب تک وہ اسے لے رہے ہوں۔ اس کا اثر ہمیشہ نہیں رہتا۔
ڈاکٹر انجو کہتی ہیں: ’یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آپ کتنی دوائیاں لے رہے ہیں، آپ کو اسے لینا چاہیے یا نہیں۔ کیا آپ کو کوئی موجودہ مسئلہ ہے جو ان دوائیوں سے بڑھ سکتا ہے؟ اس سب کے لیے کسی اچھے ماہر امراضِ جلد کے مشورے کی ضرورت ہے۔‘
تاہم وہ کہتی ہیں کہ ایسے شواہد فی الحال نہیں ہیں کہ ’یہ (دوائیاں) ہارٹ اٹیک (دل کے دورے) کا باعث نہیں بن سکتیں۔ لیکن بعض اوقات زیادہ خوراک لینے سے جگر اور گردے متاثر ہو سکتے ہیں، اور اس طرح کے دیگر بالواسطہ اثرات ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ علاج کسی ماہر ڈاکٹر کی نگرانی میں کروایا جائے جو یہ جانتا ہو کہ کس پٹھے میں انجیکشن لگانا ہے اور کتنی مقدار میں۔ یہ خود نہ کریں، پارلر میں نہ کروائیں، اور کسی ایسے ڈاکٹر سے بھی نہ کروائيں جو اس طریقہ علاج کا ماہر نہ ہو۔‘