مہاراشٹر بجٹ : اور اقلیتوں کی حصہ داری
تکلف برطرف : سعید حمید
اس موضوع پر کبھی بات ہی نہیں ہوتی ہے ، الیکشن سے پہلے بھی نہیں ،
الیکشن کے بعد بھی نہیں ۔
حالانکہ ، الیکشن پانچ برس میں ایک مرتبہ ہی آتا ہے لیکن اس میں یہی بات ہوا کرتی ہے کہ
کتنے مسلمانوں کو ٹکٹ دیں گے ؟ کتنے مسلم امیدوار کھڑے کریں گے ؟
اور الیکشن چلا جاتا ہے تو یہی بات ہوتی ہے ،
ٹھیک ہے ، اس الیکشن میں مسلم امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا ، آئیندہ الیکشن میں کیا دو گے ؟
اور بھاگتے بھوت کی لنگوٹی کی طرح کسی کی جھولی میں کوئی کمیٹی ، کوئی کونسل ،
کوئی ممبری ڈال دی جاتی ہے یا پھر پارٹی پوسٹ اور۔۔۔۔ مسلمانوں کا مدعا ٹائیں ٹائیں فش ۔
پانچ برس میں ایک مرتبہ آنے والے الیکشن میں تو اتنا شور شرابہ کیا جاتا ہے ،
لیکن ، ہر سال جو بجٹ آتا ہے ، اور چلا جاتا ہے ،
اس پر مسلمانوں میں ، مسلم قیادت میں ، مسلم دانشوروں میں اور مسلم میڈیا میں کوئی بات چیت نہیں ہوتی ؟
تو پھر لگتا ہے کہ قوم کو بجٹ ، اور قوم کےڈیولپمنٹ ، ترقی سے زیادہ مسلم سیاست دانوں کے کیرئیر کی فکر
ہے کہ الیکشن پر شور شرابہ کیا جاتا ہے ۔
کچھ لوگوں کی کوشش ہے کہ ہمارا کرئیر بن جائے ۔۔۔بس ؟
ورنہ ، جب جس کی جتنی آبادی ، اس کی اتنی حصہ داری ، اقتدار میں ساجھے داری ، وغیرہ
جیسے نعرہ ( جو صرف الیکشن کے دوران ہی ) لگائے جاتے ہیں، تو اس کی حقیقی تصویر کیا ہے ؟
اس بات کا پتہ کرنے کیلئے ہمارے سماج میں بجٹ پر چرچا کیوں نہیں ہوتی ہے ؟
بجٹ کا مطالعہ کیوں نہیں کیا جاتا ہے ؟
مسلم میڈیا بجٹ وکو خاطر خواہ کوریج کیوں نہیں دیتا ہے ؟
اسے ایک روایتی خبر کیوں بنا دیا جاتا ہے ؟
ایسے کئی سوالات پوچھے جا سکتے ہیں ، اٹھائے جاسکتے ہیں ،
لیکن پتہ ہے کہ کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملے گا ۔
پھر بجٹ کی جانکاری رکھنا ضروری ہے ،
بجٹ میں اقلیتوں کی ساجھے داری ، شراکت کتنی ہے ؟ اس کی معلومات رکھنا ضروری
ہے اور اقلیتوں کیلئے وقف بجٹ و اسکیموں کا کیا ہو رہا ہے ؟
اسلئے کہ اقلیتی وزارت ، اقلیتی محکمہ ، بجٹ میں اقلیتوں کیلئے بجٹ کی پرویزن ، اور اقلیتوں
کی فلاح و بہبود کیلئے اسکیمیں آسانی سے پاس نہیں ہوئی ہیں ، ان کیلئے کئی دہائیوں
تک کوششیں ہوئیں ، جدوجہد ہوئی ، تب ہم یہاں تک پہنچ سکے ہیں ۔
اگر قوم نے توجہ نہیں دی ، تو پھر خاموشی سے یکے بعد دیگرے ، اقلیتوں کی فلاحی
اسکیمیں بند ہوتی چلی جائیں گی ۔
فنڈ بھی LAPSE ہوتا چلا جائے گا ، اور ایک دن اقلیتی فلاح کی منسٹری برائے
نام بن کر رہ جائے گی ، یہ آزاد بھارت میں بھارت کے مسلمانوں کی
اس جدوجہد کیلئے بھاری نقصان ہو گا ،
جن کی وجہ سے سچر کمیٹی ، محمود الرحمان کمیٹی ، ڈاکٹر گوپال سنگھ پینل وغیرہ کی رپورٹ مرتب ہوئیں ۔
اور ان کی سفارشات کی روشنی میں اقلیتی وزارتوں کا قیام ہوا ۔
بجٹ میں ان کیلئے پرویزن کی گئی ، اور کئی فلاحی اسکیمیں آج اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے جاری ہیں۔
اس پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے ، اس کا جائزہ لیتے رہنا بھی ضروری ہے ۔
انہی حقائق کے حوالے سے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ مہاراشٹر کے بجٹ میں اقلیتوں کی ساجھے داری
کی کیا حقیقت ہے ؟ اور کیا صورتحال ہے ؟
مہاراشٹر اسمبلی کا بجٹ اجلاس مارچ ۲۰۲۵ ء میں شروع ہو گا ، جس کی تیاری جاری ہے ۔
اس مرتبہ سات تا آٹھ لاکھ کروڑ روپوں کے حجم کا بجٹ پیش ہو سکتا ہے ۔
لیکن ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی یقین ہے کہ اقلیتوں کو جو حصہ ملے گا وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ
کے ہی جیسا ہو گا ، اور ایسا ہر سال ہی ہوا کرتا ہے ۔
یہ بات تو سچ ہے کہ اقلیتوں کا مطلب صرف مسلمان نہیں ہے ، پھر بھی ،
اقلیتی وزارتوں کے ساتھ ، ان کے بجٹ کے ساتھ اور ان کی اسکیموں کے ساتھ ویسا ہی
سوتیلا سلوک کیا جا تا ہے ، جیسا مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے !!!
کیوں ؟ اس لئے کہ جو اقلیتی اقوام ہیں ، ان میںسب سے زیادہ پسماندہ مسلمان
ہی ہیں اور کچھ ایسی اقوام بھی اس میں شامل ہیں ، جن کا معاشی ، سماجی ،
اور تعلیمی پسماندگی سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے !!
جیسے ، یہودی ، جین ، پارسی ، اور باقی رہے سکھ اور کرسچن ، تو ان میں پسماندہ طبقات
بہت کم ہیں ، جنہیں کمیونٹی فند بھی دستیاب ہو جاتا ہے ۔
اس اعتبار سے مہاراشٹرمیں سب سے بڑی اقلیت ، اور سب سے زیادہ پسماندہ اقلیت
لیکن جو سلوک مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ، ویسا ہی سلوک اقلیتی بجٹ کے ساتھ ہوتا ہے ،
اس سے یہودی ، جین ، پارسی ، سکھ ، عیسائی طبقے کو کچھ فرق نہیں پڑتا ہے ۔
اب ا س فہرست میں بدھسٹ بھی شامل ہیں ، لیکن ان کیلئے دیگر وزارتوں یعنی سوشل جسٹس،
ایس ۔ ایس ٹی وکاس وغیرہ میں بھی کافی بجٹ دستیاب ہو جاتا ہے ۔
لے دے کر رہ جاتے ہیں ، مسلمان ، جن کیلئے پسماندہ ہونے کے باوجود کوئی فنڈ نہیں ۔
ہم اگر مجموعی اقلیتی طبقات کی بھی بات کرلیں : تو مہاراشٹر میں اقلیتوں کی آبادی ، کل ریاستی
آبادی کا بیس فیصد 20 % ہوا کرتی ہے لیکن اس کے باوجود ریاستی بجٹ میں
اقلیتی محکمہ کی اسکیموں کیلئے جو فنڈ فراہم کیا جاتا ہے : وہ بجٹ کا 0.01 % ہی ہوا کرتا ہے ،
یعنی آج تک اقلیتی محکمہ کا بجٹ ایک ہزار کروڑ روپوں تک بھی نہیں پہنچ سکا ۔
اس مرتبہ بھی وہی ہوگا ۔
اس کے برعکس ، ریاست میں پسماندہ طبقات جیسے ، ایس سی ۔ ایس ٹی ، او بی سی ،
آدی واسی ، وغیرہ کی آبادی بھی 20 % ہے ، جن کی فلاح کیلئے سوشل جسٹس ،
آدی واسی وکاس ، بیک وارڈ کلاس وکاس ، محکموں سے ہر سال کے بجٹ میں تقریبا ً
بیس ہزار کروڑ روپوں کا فنڈ ملتا ہے ۔
اور ان پسماندہ طبقات کا فنڈ ہر سال بڑھتا ہی رہتا ہے ، کم نہیں کیا جاتا ہے ۔
ادھر اقلیتی محکمہ کیلئے جو بجٹ اعلان شدہ ہوتا ہے ، اس کی دستیابی میں غیر معمولی تاخیر
کی جاتی ہے ، اس لئے اقلیتی بجٹ کا ایک بڑا حصہ بغیر خرچ کئے ،
سرکاری خزانے میں لوٹا دیا جاتا ہے ۔
ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس پر کبھی قوم نے ، قوم کے دانشوروں نے ، قوم
کے قائدین و نمائیندوں نے اور قومی میڈیا نے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی ہے !!
یہ بات کافی الم ناک ہے کہ ہماری توجہ بنیادی باتوں پر نہیں ہے ، جن میں سے ایک بہت
ہی اہم ہے : بجٹ ؛
اگر ہم بجٹ میں اقلیتوں کی حصہ داری کے معاملے پر توجہ نہیں دیں گے ، تو ہماری ترقی کیلئے
اہم ترین ضرورتیں : ( ۱) فائنانس ۔ فنڈ ( ۲) اسکیمیں یہ صرف کاغذی بن کر رہ جائیں گی ،
اور سچر کمیٹی و دیگر کمیٹیوں کی رپورٹ کا مستقبل ردی کی ٹوکری ہوگا ۔
مستقبل میں کوئی سرکار سچر کمیٹی جیسی کوئی کمیٹی بنائے گی ؟ اس کی سفارشات کو عملی جامہ
پہنائے گی ؟ ایسا تو دور دور تک نظر نہیں آتا ہے ۔ اسلئے بجٹ میں اقلیتوں کی حصہ داری کے موضوع
پر سنجیدگی اختیار کرنا ، اور اس پر توجہ دینا ضروری ہے !!
______
🚩یاروں کے یار ڈاکٹر عمران امین
Imran Ameen
🕊️دلی تاثرات :- احمد نعیم
سچ تو یہ ہے کسی بھی شخصیت کی تعریف میں تفصیل سے خوبیاں لکھ دینا ، صفات بیان کردینا ، اتنا مشکل نہیں جتنا ایک شخصیت کو کام و عمل میں دکھا کر اس کی صفات ظاہر کر دینا۔
سچے اور اچھے دوست بھی نعمتوں میں ایک نعمت ہیں عمران امین سچے اور دوستوں کے دوست یاروں کے یار ہیں جو شہر عزیز مالیگاؤں سے ہیں لیکن خوابوں کی نگری ممبئی میں کارپوریشن کی اسکول کے ساتھ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور یشونت راو چوہان یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں. موصوف کا شمار ممبئی کارپوریشن کے سب سے زیادہ کوالیفائیڈ ٹیچر میں ہوتا ہے جو ہمارے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں. شہر سے قلبی لگاؤ بےپناہ ہے اس لیے جب بھی چھٹیاں ملتی ہیں وہ شہر عزیز مالیگاؤں میں ہی چھٹیاں گزارتے ہیں اور ہر شب بھرپور شرکت سے دوست یاروں سے اپنی شب آباد رکھتے ہیں ان دنوں وہ تمام ہی دوستوں سے ملنے کا جتن خصوصی طور پر کرتے ہیں ادبی دوستوں میں افسانہ نگار و شاعروں سے خلوص سے ملتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عمران امین کے دوستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں (آستین کے دشمن نظر نہیں آتے) اکثر رات مالیگاؤں شہر میں دوستوں کے درمیان گزرتی ہے اور بعد نماز فجر واک کے بعد وہ سونے جاتے ہیں اور پھر ممبئی پہنچ کر وہ اپنی بھاگ دوڑ کی روٹین میں شامل ہوجاتے ہیں لیکن شہر سے محبت کی مثال ایسی ہے کہ ہر دوست کو وہ وقت دیتے ہیں آنے کی اطلاع دیتے ہیں ملتے ہیں نہ اپنے کسی بات کا رعب اور نہ غرور ایسی شخصیت اس زمانے میں خال خال ہی ملتی ہے
عمران امین سے جب بھی ملاقات ہوئی ایسا محسوس ہوا جیسے رم جھم بارش ہو رہی ہو یہ ان کے خلوص کا ایک جیتا جاگتا احساس ہے کیونکہ ان سے ملاقات میں مصنوعی پن نہیں لفظوں کی فضول خرچی نہیں بس خلوص ہی خلوص کا پیکر
عمران امین سر اگر زندگی میں کوئی افسانہ، کہانی نہ بھی لکھیں تو کوئی بات نہیں کیونکہ جو ادیب اپنے ادب میں رول ماڈل لکھتا ہے ویسی ہی زندگی عمران امین حقیقی لائف میں جیتے ہیں. عمران امین سر ایک ادیب کے طور پر نہیں بلکہ ایک دردمند انسان کے روپ میں ملتے ہیں جو بدرجہ اتم ان میں موجود ہے کسی گروپ بندی کا شکار نہیں کسی کی غیبت نہیں جو ہے منہ پر کہتے اور وہیں اس بات کو دفن کرکے نئے سرے سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں یہ ہے وہ صفات جو ایک صحت مند معاشرہ اور ایک انسان میں ہونی چاہیے جو کہ سر میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے
ممبئی کارپوریشن کے بیسٹ ٹیچر مئیر ایوارڈ یافتہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوش مزاج معلم . آپ نے مہاراشٹر کی درسی کتابوں میں دو تین سال تک مسلسل CONCEPT کی سینکڑوں فاش غلطیوں کی نشاندہی کر کے تنقید و تحقیق کے میدان میں اپنا ایک مقام بنایا. ایک معلم ہونے کے باوجود بھی آپ نے کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ببانگ دہل حق بات کہتے رہے اور اپنے مشن میں ڈٹے رہے. حالانکہ مسلسل انہیں دھمکیاں مل رہی تھیں. سوشل میڈیا پر انہوں نے کہا تھا کہ میں اردو کی بہتر خدمت باہر سے کرسکتا ہوں ادارے میں غلاموں کی طرح رہنا مجھے منظور نہیں. (اس تعلق سے ہمارا موقف یہ ہے کہ آپ کو کمیٹی میں شامل ہوکر اپنی خدمات انجام دینا چاہیے )
یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے نیٹ سیٹ اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے بے حد کارآمد کتاب اردو انسائیکلوپیڈیا نا صرف بھارت بلکہ پڑوسی ملک میں بھی بہت مقبول ہوئی جس کا پانچ ایڈیشن ختم ہو چکا اور چھٹا ایڈیشن عن قریب منظر عام پر آ رہا ہے.
آپ کی خدمات میں سے ایک اہم خدمت UGC NET کی مفت کوچنگ کلاس ہے جس سے فیض یاب ہو کر کئی اسٹوڈنٹ NET, SET اور JRF کوالیفائی کرچکے ہیں جن میں سے کچھ کالجوں میں لیکچرار بن گئے ہیں.
غالباً گروپ بندی کا شکار ہو کر ایسے قابل شخص کو دانستہ مہاراشٹر کے اس ادارے سے دور رکھا گیا ہے جہاں سے ریاست کے بچوں کا مستقبل طئے کرنے والی کتابیں شائع ہوتی ہیں جبکہ کئی نا اہل لوگ اس ادارے سے وابستہ ہیں میرے نزدیک یہ بھی شعور کی "موت" ہے.
معلوم ہوا کہ گزشتہ دنوں ان کی بتائی گئی اغلاط کو "بال بھارتی" نے درست کیا لیکن شکریہ تو درکنار اعتراف تک نہیں کیا گیا . جلد ہی ان اغلاط کی نشاندہی اور پھر نئے ایڈیشن میں اس کی اصلاح کو راقم تفصیل سے لکھ کر عوام کے سامنے تحریری شکل میں لائے گا تاکہ سند رہے ایسے باریک بین افراد ہمارے تعلیمی اداروں اور تعلیمی پالیسی کے لیے کتنے فائدہ مند ہیں لیکن ہماری اردو دنیا اور اردو سے شکم سیر ہونے والوں کی ہڈی میں وہ گودا نہیں کہ اپنے پیشے کو حلال کرسکیں اور ایسے افراد کا شکریہ ادا کرسکیں تاکہ قوم میں ایسے باریک بین زبان داں پیدا ہوتے رہیں راقم کی خواہش ہے کہ ان کی اس کاوش اور اغلاط کی نشاندہی اور بال بھارتی کی درستگی پہ عمران سر کے اعزاز میں ایک نشست رکھی جائے تاکہ ایسے افراد کی حوصلہ افزائی ہو یہ ہمارا سماجی و ادبی قرض ہے
_________
🔴ورن آنند لدھیانہ
🎬 غزل
چاند ستارے پھول پرندے شام سویرا ایک طرف
ساری دنیا اس کا چربہ اس کا چہرا ایک طرف
وہ لڑ کر بھی سو جائے تو اس کا ماتھا چوموں میں
اس سے محبت ایک طرف ہے اس سے جھگڑا ایک طرف
جس شے پر وہ انگلی رکھ دے اس کو وہ دلوانی ہے
اس کی خوشیاں سب سے اول سستا مہنگا ایک طرف
ساری دنیا جو بھی بولے سب کچھ شور شرابہ ہے
سب کا کہنا ایک طرف ہے اس کا کہنا ایک طرف
زخموں پر مرہم لگواؤ لیکن اس کے ہاتھوں سے
چارہ سازی ایک طرف ہے اس کا چھونا ایک طرف
اس نے ساری دنیا مانگی میں نے اس کو مانگا ہے
اس کے سپنے ایک طرف ہیں میرا سپنا ایک طرف
____________
غزل
دن میں تارے دکھانے والے تھے
اس کے تیور نشانے والے تھے
تم کہاں راستے پہ آ نکلے؟
تم تو نقشے بنانے والے تھے
آپ جن مسخروں پہ ہنستے ہیں
پہلے کرتب دکھانے والے تھے
کچھ تو بس بھونکتے رہے ہم پر
اور کچھ کاٹ کھانے والے تھے
ایسی بارش کو بھاڑ میں جھونکیں
آپ تو مسکرانے والے تھے
علی زیرک