Saturday, 5 July 2025

*🔴سیف نیوز بلاگر*

حضرت مولانا حافظ سعید احمد ملی کا وصال امت کا خسارہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
   رہ کے دنیا میں بشر کو نہیں زیبا غفلت 
    موت کا بھی دھیان لازم ہے کہ ہرآن رہے  
   جو بشر آتا ہے دنیا میں یہ کہتی ہے قضاء 
     میں بھی پیچھے چلی آتی ہوں ذرا دھیان رہے 

          ازقلم حافظ عقیل احمد ملی قاسمی 
      ترجمان وفاق المدارس والمکاتب مالیگاؤں۔ 

       آج صبح کی اولین ساعتوں میں یہ روح فرساں خبر موصول ہوئی کہ شہر عزیز مالیگاؤں کے قدیم انتہائی جید حافظ قرآن قارئ سبعہ عشرہ باصلاحیت اور باعمل عالم دین مصلح قوم وملت حضرت مولانا حافظ سعید احمد ملی رحمت اللہ علیہ اس دار فانی سے رخصت فرماگئے انا للہ و انا الیہ راجعون۔ 

       مرحوم حافظ صاحب کی ولادت سنہ 1946 میں ایک دیندار گھرانے میں ہوئی آپ نے ابتدائی تعلیم عصری اسکول سے ساتویں جماعت تک حاصل کی اس کے بعد آپ نے معہد ملت مالیگاؤں میں داخلہ حاصل کرکے عالمیت اور سبعہ عشرہ کی مکمل تعلیم حاصل کی اس کے بعد آپ نے قرآن مجید حفظ فرمایا اور اس وقت سے مسلسل 45 سالوں تک تراویح میں قرآن مجید سنایا اور نئی مسجد اسلام پورہ مالیگاؤں میں مکمل 50 برس امامت کے فرائض پوری احساس ذمہ داری کے ساتھ انجام دئیے۔ 

        آپ زمانہ طالب علمی میں استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد ادریس عقیل ملی قاسمی اور مولانا جمیل احمد قاسمی صاحب کے ہم درس رہے فراغت کے بعد آپ محض ایک روایتی امام نہیں رہے بلکہ آپ جس محلے میں امامت کرتے تھے اہلیان شہر جانتے ہیں کہ وہ شہر عزیز کا کتنا بڑا محلہ ہے مگر اس کے باوجود وہ تمام گھرانوں کی مکمل معلومات رکھتے تھے اور ان کے یہاں موت میت شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات میں نہ صرف یہ کہ شرکت کرتے تھے بلکہ بہت گہری نظر رکھتے تھے اور منکرات پر بروقت پوری جرأت و شجاعت کے ساتھ نکیر کرتے تھے مگر وہ منکر سے نفرت کرتے تھے منکر پر عمل کرنے والے سے وہ کبھی نفرت نہیں کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آج اس محلے میں جو بھی اصلاحی پہلو نظر آتا ہے اس میں حضرت حافظ صاحب کی بہت بڑی قربانی اور کوششیں ہیں۔ 

        حضرت موصوف تحریک اصلاح المسلمین کے بانیان میں سے تھے اور تادم حیات اس سے وابستہ رہے اور پوری احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے زمانے کے نابغہ روزگار علماء کے ساتھ مل کر شہر عزیز مالیگاؤں کی اصلاحی کاموں میں پورے اخلاص و للہیت اور جوش وخروش سے سرگرم عمل رہے جو انصاف پسند طبقات کی نظر میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ان شاءاللہ۔ 

        آپ بہت بہادر انسان تھے وہ کبھی بھی غلط کاموں کو برداشت نہیں کرتے تھے مگر غلط کاموں پر غلط طریقے سے نکیر بھی نہیں کرتے تھے بلکہ مکمل شریعت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سامنے والا کتنا بھی چھوٹا اور بظاہر کتنا ہی بے حیثیت انسان ہو اس کو مکمل عزت و احترام کے ساتھ بیٹھا کر ایسی شفقت اور نرمی سے پہلے سمجھایا کرتے تھے کہ اکثر مرتبہ پہلی ہی دفعہ ان کے سمجھانے پر سامنے والا منکر سے رک جاتا تھا ہاں اگر کوئی ضدی آدمی ہو تو تو پھر حضرت موصوف اس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوتے تھے اور اس کی مکمل اصلاح کرکے ہی دم لیا کرتے تھے۔ 

        وہ قوم وملت کے لئے بہت ہی حساس دل رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ اس پر بہت گہری نظر رکھتے تھے کہ مسلمانوں کے معاملات غیر شرعی عدالتوں میں نہ جانے پائیں یہی وجہ تھی کہ انھیں جیسے ہی علم ہوتا تھا کہ کسی گھر میں وراثت کے معاملات کو لے کر یا میاں بیوی کے درمیان آپس میں کوئی ناراضگی کا ماحول ہے تو وہ بغیر کے انتظار کئے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے فوراً آگے آتے اور بغیر کسی کی حمایت کئے اور بغیر کسی سے خوف کھائے اور بغیر کسی کی لعنت ملامت کی پرواہ کئے شریعت کی روشنی میں حق بات پوری قوت سے کہتے اور معاملے کو رفع دفع کرواتے مظلوموں کو حق دلواتے اور ظالم کو ظلم سے روکتے تھے۔ 
          ان سب کے ساتھ ساتھ وہ بہت عبادت گذار اور معمولات کے پابند انسان تھے وہ اپنی مسجد میں امامت کے ساتھ ساتھ مسجد میں درس قرآن جمعہ کے بیانات اور دیگر پروگرامات کے انعقاد کی بہت فکر کرتے تھے اور بنفس نفیس اس میں شرکت فرمایا کرتے تھے ساتھ ہی وہ اپنی مسجد میں سرگرم مکتب کے بہت خواہشمند تھے اور آج کا موجودہ جاری مکتب اس کی بہترین مثال ہے۔ 

        حضرت مولانا کا بہت بڑا وصف یہ تھا کہ اپنے چھوٹوں کو آگے بڑھایا کرتے تھے اور راقم الحروف خود اس بات کا گواہ ہے کہ اپنی مسجد میں آنے والے مقررین چاہے وہ عمر میں کتنے ہی چھوٹے ہوں وقت سے بہت پہلے مسجد بذات خود تشریف لاتے اور مکمل تقریر بہت غور سے سنا کرتے تھے اور بعد میں اگر کوئی قابل اصلاح ہوتی تو اس پر بہت شفقت کے ساتھ متوجہ فرماتے تھے اور ساتھ ہی بہت حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی مسجد میں جتنےکام ان کی امامت کے دور میں جاری تھے وہ آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری وساری ہیں یعنی انہوں نے اپنے زمانے میں افراد سازی کا کام بہت بہتر انداز میں انجام دیا اسی طرح شہر عزیز کے چھوٹے بڑے دینی پروگرامات میں دعوت نامے کا انتظار کئے بغیر اپنی سہولت سے شرکت فرمایا کرتے تھے راقم الحروف اس کا بھی گواہ ہے۔ 

        ان سب کے ساتھ ساتھ وہ ایک بھرے پرے خاندان کے سربراہ اور ذمہ دار آدمی تھے اور پوری احساس ذمہ داری کے ساتھ سب کے حقوق کا خیال رکھا کرتے تھے اس کی جیتی جاگتی مثال آج ان کا بھرا پرا خوشحال خاندان ہے جو ابھی بھی ایک ہی جگہ آباد ہے ان کے چھ فرزند ہیں اور سات بیٹیاں ہیں چار فرزند حافظ قرآن اور عالم دین ہیں اور سات بیٹوں میں سے پانچ عالمہ ہیں الحمدللہ علی ذالک۔ 

        وہ عمر کے تقریباً اسی کے مرحلے میں تھے مگر پوری طرح صحت مند تھے آخری وقت تک چلتے پھرتے رہے اور معمولات زندگی میں پوری طرح مصروف رہے بس گذشتہ چند دنوں سے کمزوری کا احساس بڑھ گیا تھا اور گذشتہ کل اچانک انھیں ہارٹ اٹیک آیا جس پر ان کے لائق وفائق فرزندوں نے انھیں فوری راحت پہنچانے اور علاج ومعالجے کی پوری فکر کی کسی قسم کی شکایت کا کوئی موقع نہیں دیا بلکہ انہوں نے اپنی بساط سے آگے بڑھ کر کوشش کی مگر حقیقتاً حضرت والا کا وقت موعود آچکا تھا یہی وجہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق رات تقریباً دو بجے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور تدفین صبح گیارہ بجے بڑا قبرستان میں عمل میں آئی نماز آمین عشرت جنازہ ہال میں ادا کی گئی نماز جنازہ اور تدفین میں علماء اور خواص کے ساتھ ساتھ عامۃ المسلمین کے جس جم غفیر نے شرکت کی وہ حضرت کی منجانب اللہ مقبولیت کی علامت ہے۔ 

       حضرت موصوف کا اٹھ جانا یہ امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا خسارہ ہے خصوصاً آج جبکہ اصول پسند صالحین امت کی امت مسلمہ کو شدید ضرورت ہے بطور خاص یہ ان کے اہل خانہ کے لئے بہت ہی سخت غم کا وقت ہے ہم صدر و اراکین وفاق المدارس والمکاتب مالیگاؤں اور صدر و اراکین شاہ ولی اللہ اکیڈمی مالیگاؤں ایسے سخت وقت میں ان کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ ہیں اور ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور ساتھ ہی تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں انہیں صبر و رضا کی تلقین کرتے ہیں اور دل کی عمیق گہرائیوں سے دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت موصوف کی جملہ سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے جملہ حسنات کو محض اپنے فضل وکرم سے شرف قبولیت عطاء فرمائے منکر نکیر کے سوال وجواب آسان فرمائے ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے جنت الفردوس میں اعلی علیین میں مقام عطاء فرمائے جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمِین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
*حافظ سعید احمد ملی صاحب کی قرآنی خدمت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی*
 یہ کائنات فانی ہے اور یہاں کی ہر ایک شے آنی جانی ہے، یہاں جو بھی آیا ہے وہ جانے کے لیے آیا ہے، موت زندگی کے تعاقب میں برابر لگی رہتی ہے، یہاں تک کہ اس پر غلبہ پالیتی ہے، انسان کی عمر محدود بھی ہے، مختصر بھی ہے اور فانی بھی، روزانہ نہ جانے کتنے لوگ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو غمزدہ کرجاتے ہیں! انہی رخصت ہونے والوں میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کارناموں اور خوبیوں کی وجہ سے موت کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں، ایسی ہی قابل قدر شخصیات میں سے ایک جناب حافظ سعید احمد ملی صاحب مرحوم بھی تھے، ان سے میری طویل رفاقت رہی، انہوں نے معہد ملت سے اکتساب فیض کیا تھا اور قرآن مجید سے اپنا رشتہ اس طرح استوار کیا تھا کہ تا دمِ زیست وہ رشتہ منقطع نہ ہوا، انہوں نے کئی دہائیوں تک تراویح میں قرآن مجید سنایا، اور لانبے عرصے تک نئی مسجد( اسلام پورہ) میں امامت کے فرائض انجام دیے، انہوں نے اپنے بچوں کو بھی قرآن مجید کی تعلیم دلائی اور اپنے لیے توشہ آخرت فراہم کیا، ”اصلاح المسلمین“ کی جانب سے کی جانے والی تعلیمی اور رفاہی سرگرمیوں میںبھی وہ شانہ بشانہ شریک رہے، آج ان کی رحلت سے دل غمزدہ اور آنکھیں اشک بارہیں، ان خیالات کا اظہار حضرت مولانا محمد ادریس عقیل ملی قاسمی صاحب دامت برکاتہم (صدر وفاق المدارس والمکاتب مالیگاؤں) نے فرمایا، انہوں نے حافظ سعید احمد ملی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کو اپنے لیے ایک ذاتی حادثہ قرار دیتے ہوئے اپنے گہرے رنج کا اظہار کیا اور حافظ صاحب مرحوم کے اہلِ خانہ کی خدمت میں تعزیتِ مسنونہ پیش کی، وفاق المدارس والمکاتب کے بانی وجنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے بھی حافظ صاحب مرحوم کی خوبیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ ایک صاف دل اور درد مند انسان تھے، مزاج اورطبیعت کی سادگی ان کا طرّہٴ امتیاز تھی، مختلف دینی تقریبات میں وہ بڑے ذوق وشوق کے ساتھ شریک ہوتے تھے، انہیں اپنے مادر علمی معہد ملت سے بھی قلبی لگاؤ تھا، انہوں نے جس طرح خاموشی کے ساتھ دینی تعلیم کی نشر واشاعت اور قرآن مجید کی خدمت کی ہے وہ تازہ فارغین مدارس کے لیے ایک روشن اور لائق تقلید مثال ہے، ان کے انتقال سے شہر ایک مخلص اور درد مند انسان سے محروم ہوگیا، دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے، ان کو اعلی علیین میں جگہ دے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)
منجانب: *وفاق المدارس والمکاتب مالیگاؤں*

*🔴سیف نیوز بلاگر*

حضرت مولانا حافظ سعید احمد ملی کا وصال امت کا خسارہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم     رہ کے دنیا میں بشر کو نہیں زیبا غفلت      موت کا...