وہ بری عادتیں جو انسانی صحت کو ’بری طرح‘ متاثر کرتی ہیں
بری عادات دائمی بیماریوں، ذہنی تناؤ اور کمزور مدافعتی نظام پیدا کر کے ہماری صحت کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔
یہ عادات سوزش، آکسیڈیٹیو تناؤ اور ہارمونل عدم توازن کو بڑھاتی ہیں جس سے جسم بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان عادات کو پہچاننا اور ان کو صحت طرز زندگی سے تبدیل کرنا جسمانی اور ذہنی تندرستی کو بہتر بنا سکتا ہے۔
کھانا چھوڑ دینا یا رات کو دیر سے کھانا
کھانا چھوڑنا یا کھانے میں تاخیر کرنا بلڈ شوگر کی سطح کو خراب کر سکتا ہے، میٹابولزم کو سست کر سکتا ہے اور جنک فوڈ کھانے کی خواہش کو بڑھا سکتا ہے۔ کھانے کے بے قاعدگی بھی ہاضمے میں خلل ڈالتی ہے اور ایسڈ ریفلکس اور گیسٹرک مسائل کا خطرہ بڑھاتی ہے۔
ضرورت سے زیادہ سکرین ٹائم
سکرین پر بہت زیادہ وقت گزارنا آنکھوں پر دباؤ اور خراب نیند کا باعث بن سکتا ہے۔ سکرین سے خارج ہونے والی نیلی روشنی آپ کے میلاٹونن کی پیداوار میں مداخلت کر سکتی ہے جس کی وجہ سے آپ کے لیے سونا مشکل ہو جاتا ہے۔
اچھی نیند نا ہونا کم نیند دونوں ہی مدافعتی نظام کو کمزور کرنے، آپ کے تناؤ کے ہارمونز کو بڑھانے اور موٹاپے، دل کی بیماری اور دماغی صحت کے مسائل کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ سونے کے وقت کا مستقل شیڈول رکھنا نیند کے معیار کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
منفی سوچ
منفی سوچ جیسے خود تنقیدی تناؤ کی سطح کو بڑھا سکتی ہے اور پریشانی اور افسردگی کا باعث بن سکتی ہے۔ جسم کورٹیسول خارج کرکے منفی خیالات کا جواب دیتا ہے جو مزید سوزش اور دائمی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ مثبت سوچ مشق کریں اور اگر ضرورت ہو تو معالج سے رابطہ کریں۔
ہائیڈریشن کی کمی
مناسب مقدار میں پانی نہ پینا پانی کی کمی کا باعث بنتا ہے جو پھر سر درد، تھکاوٹ اور خراب ہاضمے کا باعث بنتا ہے۔ پانی کی کمی آپ کے گردوں کے کام اور جلد کی صحت کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ آپ کو روزانہ کم از کم 8 گلاس پانی پینے اور ہائیڈریٹنگ فوڈز استعمال کرنے چاہییں۔
تمباکو نوشی اور شراب نوشی
تمباکو نوشی اور الکحل کا زیادہ استعمال آپ کے اہم اعضا کو نقصان پہنچا سکتا ہے، آپ کے مدافعتی نظام کو کمزور کر سکتا ہے اور کینسر، جگر کی بیماری اور دل کے مسائل کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔ نکوٹین اور الکحل تناؤ اور اضطراب کو بڑھا کر آپ کی ذہنی صحت پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں۔
جنک فوڈ
پروسیسڈ فوڈز، شوگر ڈرنکس اور فاسٹ فوڈ کا زیادہ مقدار میں استعمال سوزش کو بڑھاتا ہے اور بلڈ شوگر کی سطح کو بڑھاتا ہے۔ یہ موٹاپا، ذیابیطس اور دل کی بیماری میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان غذاؤں میں ضروری غذائی اجزا کی شدید کمی ہوتی ہے اور یہ صحت کے دیگر مسائل کا باعث بنتے ہیں۔
ورزش کو نظر انداز کرنا
روزانہ ورزش اچھی صحت کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے۔ غیر متحرک طرز زندگی پٹھوں کو کمزور کرتا ہے، میٹابولزم کو سست کرتا ہے اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ ورزش کی کمی وزن میں اضافے اور دماغی صحت کی خرابی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
یہ عادات پہلے تو بے ضرر لگتی ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کر سکتی ہیں۔ ان عادات کو ذہن میں رکھنا اور صحت مند متبادل کا انتخاب کرنے کی شعوری کوشش کرنا آپ کی صحت کو ٹریک پر رکھنے میں مدد کرے گا۔
ہاتھ ملانے پر خوبصورت شاعرانہ نوک جھونک، شعرا کے دلچسپ اختلاف رائے پر منتخب کلام سنیے -
اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا
بشیر بدر
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے
ندا فاضلی
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
بشیر بدر
دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے
ایمان قیصرانی
حال پوچھا نہ کرے ہاتھ ملایا نہ کرے
میں اسی دھوپ میں خوش ہوں کوئی سایہ نہ کرے
کاشف حسین غائر
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
گلزار
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
احمد فراز
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
بشیر بدر
کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں
میں نے شاید دیر لگادی خود سے باہر آنے میں
عزم بہزاد
خوب رکھا ہے رفاقت کا بھرم اس نے وصی
کٹ چکے ہاتھ تو پھر ہاتھ ملانے آئے
وصی شاہ
دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی
ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا
عنبرین حسیب عنبر
جان دے سکتا ہے کیا ساتھ نبھانے کے لیے
حوصلہ ہے تو بڑھا ہاتھ ملانے کے لیے
شکیل اعظمی
افسوس یہ وبا کے دنوں کی محبتیں
اک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گئے
سجاد بلوچ
اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے
حسن عباسی
حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو
کتنی دور سے آئی ہے یہ بارش ہاتھ ملانے کو
سعود عثمانی
ہمارے اردگرد موجود ذرات جو ہمارے سیارے کی تاریخ محفوظ رکھے ہوئے ہیں
سنہ 2012 سے سنہ 2017 کے درمیان ریفائیلی سیانو نے برسٹ بندرگاہ پر سمندر کی تہہ میں موجود ذرات کو نکالا تو وہ انھیں معلوم بھی نہیں تھا کہ انھیں کیا ملنے والا ہے۔
جب انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے سمندر پر سائنسی تحقیق کے حوالے سے موجود فرانسیسی انسٹیٹیوٹ میں ان نمونوں کا تجزیہ کیا تو انھیں کچھ ڈی این اے ملےـ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی بہت زبردست چیز دریافت ہوئی ہے۔
سنہ 1941 سے پہلے کی قدیم ترین اور گہری ترین تہہ میں پلانکٹون کی باقیات ملیں جنھیں ڈائنو فلیگلیٹس کہا جاتا ہے۔ جو حیرت انگیز طور پر سمندر کی سطح سے ملنے والے پلانکٹون کی جنیات سے مختلف ہیں۔
سیانو کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ سے قبل ان ڈائنو گلاجیلیٹس کا ایک گروپ ہے ایک گروہ بہت زیادہ تعداد میں موجود تھا اور پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد وہ تقریباً ناپید ہو گیا۔
سیانو اور ان کے ساتھیوں نے اس تحقیق میں سامنے آنے والے نتائج کو سنہ 2021 میں شائع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہوا یہ تھا کہ برسٹ ہاربر کو عالمی جنگ کے دوران بموں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
اسی ساحل پر سنہ 1947 میں ناروے کا ایک کارگو جہاز تباہ ہوا تھا۔ اس حادثے میں 22 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے نتیجے میں ایلومینیم نائٹریٹ، زہر آلود کیمیکل جسے کھاد بنانے اور دھماکہ خیز مواد بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے سمندر میں پھیل گیا۔
بندرگاہ پر سمندر کی تہہ میں آنے والے سالوں جیسا کہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں پلانکٹون کمیونٹی میں زید تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔
سیانو کہتے ہیں کہ ’ہم نے اس کا موازنہ زرعی سرگرمیاں کی وجہ سے ہونے والی آلودگی کی اقسام سے کیا۔‘
چیزوں کو یاد رکھنے کا قدرت کا ایک طریقہ کار ہے۔ انسانوں کی کچھ خاص سرگرمیاں خاص طور پر جو شدید آلودگی سے متعلق ہوں، کبھی کبھار وہ درختوں کے اندر، ساحل کی ریت اور مٹی پر اور ہمارے ماحولیاتی نظام میں دکھائی دیتی ہیں۔
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انسانی تاریخ ہمارے سیارے کے ہر تانے بانے پر لکھی گئی ہے۔
سیانو اور ان کے ساتھی جو کہ بنیادی طور پر ماہرین ماحولیات ہیں مگر انھوں نے تاریخ دانوں کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔
سیانو کہتے ہیں کہ زمین انسانی اثرات اور تاریخی واقعات کی وجہ سے بدل گئی۔
جب اس ٹیم نے برسٹ پر موجود سمندر کی تہہ کی ریت اور مٹی کا تجزیہ کیا تو انھیں یہ بھی پتہ چلا کہ اس میں بتدریج دھاتی آلودگی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی تھی۔
مثال کے طور پر اس کی نئی تہوں میں پارے، تانبے، لیڈ اور زنک کی بڑی مقدار موجود تھی۔
اس رپورٹ میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے ہوائی کے امریکی بحری اڈے، پرل ہاربر پر اسی پیمانے پر ان دھاتوں خاص طور پر لیڈ اور کرومیم موجود تھا جسے جاپانی جنگی جہازوں نے سنہ 1941 میں بموں سے نشانہ بنایا۔
سیانو نے کہا کہ وہ یقینی طور پر اس بارے میں وثوق سے نہیں کہ سکتے ہیں کہ یہ دھاتیں بموں سے براہ رات یہاں پہنچی ہیں۔
دونوں طرح سے بریسٹ اور پرل ہاربر دونوں میں انسانی تاریخ میں ایک تباہ کن، اور آلودگی پھیلانے والے لمحے کا اشارہ ہے ملتا ہے۔
دیگر تحیق کاروں نے بھی انسانی آلودگی کے ارضیاتی ریکارڈ کی تلاش میں سیارے کو چھان مارا ہے۔
چین میں سمندر میں مٹی کی تہہ میں سنہ 1950 کے بعد سے دھاتی آلودگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جس کا تعلق بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں فضائی آلودگی میں ہونے والے اضافے سے ہے۔
ایک اور الگ تحقیق میں یہ دیکھا گیا ہے کہ چین کے مخصوص حصوں میں کیسے صنعتوں کی آمد مثلاً جہاز بنانے کے عمل کو درختوں کے تنوں میں دھاتوں کی زیادہ موجودگی سے جوڑا جا سکتا ہے۔
حتیٰ کہ صدیوں پہلے رومی دھات کارینے بھی اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔
سنہ 2022 میں ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ یورپ میں برف، سمندر کی تہہ کی مٹی اور ناریل کی چھال کے اندر سیسے کی مقدار میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے، اس کا تعلق رومی صنعت کی ترقی سے ہے۔
تحقیق لکھنے والوں نے لکھا کہ کبھی کبھار یہ مشکل ہوتا ہے کہ کس مخصوص واقعے نے سیسے کی آلودگی میں اضافہ کیا ہے۔
جین لوس لوئزیو جینیوا یونیورسٹی میں طالب علم ہیں، انھوں نے وہاں جینیوا جھیل کی تہہ میں موجود مٹی اور ریت سمیت دیگر باقیات کے بارے میں پڑھا۔ خاص طور پر جھیل کے کنارے آلودہ پانی کو صاف کرنے والے پلانٹ کے قریب موجود چھوٹی سی جگہ پر ملنے والے مٹیریل کو دیکھا۔
وہ کہتے ہیں کہ وہاں موجود باقیات میں انسانی سرگرمیوں کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ نہایت اہم یہ ہے کہ جس طریقے سے پانی جھیل کے اس حصے میں بہہ رہا تھا اس نے اس قسم کے شواہد کو محفوظ کرنے میں بہت مدد کی۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ اکھٹا ہوتا ہے کیونکہ سمندر میں بننے والی لہریں اس مادے کو کنارے پر موجود پانی کے قریب رکھتا ہے۔
وہ اس دوران وڈے بے کا حوالہ دیتے ہیں جو کہ جھیل کے شمالی کنارے کے ساتھ ہے۔
سنہ 2017 میں انھوں نے اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ دھاتوں کی آلودگی کی وضاحت کی جو کہ یہاں پر واضح تھیں اور ان کی تہیں 1930 کی دہائی کی تھیں۔
اس حوالے سے مخصوص مثالیں دیتے ہوئے انھوں نے سنہ 1970 کی دہائی میں پارے کی آلودگی میں اضافے کے بارے میں بتایا۔
لوئے زیو کہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ وہاں کی صنعتوں میں ایک میں ایک حادثہ ہوا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ پارہ نکل رہا تھا کیونکہ ٹینک ٹوٹ گیا تھا اور ہمیں پانی کی تہہ میں موجود مادوں میں اس کی بہت زیادہ تعداد ملی۔
لوئی زو کا کہنا ہے کہ عناصر کی موجود مثال کے طور پر بیریم کا تعلق گاڑیوں کے اضافے سے بھی ہو سکتا ہے کیونکہ گاڑیوں کی بریک میں بھی اکثر بیریم موجود ہوتا ہے۔
دھاتوں کے علاوہ تابکاری مواد اکثر صنعتوں میں موجود ہوتا ہے، مثال کے طور پر ریڈیم کو ایک طویل عرصے تک گھڑی کو واضح کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ریڈیم کے اثرات گھڑی بنانے کی صنعتوں کے اردگرد کی زمین اور ملک کی عمارتوں میں غیر متوقع طور پر سامنے آئی اور کرہ ارض پر اس کے پھیلے ہوئے ٹکڑے، اس بری میراث کا ثبوت ہیں جو کہ 20 ویں صدی کے دوران رہ جانے والے جوہری ہتھیاروں کا ثبوت ہیں۔
مثال کے طور پر، نیواڈا کے صحرا میں بڑے بڑے ہتھیاروں کے ٹیسٹوں کے ذریعے بنائے گئے گڑھے کو لیجیے۔ لیکن جوہری دھماکوں کی وجہ سے ہونے والی کچھ آلودگی ایسی ہوتی ہے جس کا عمومی طور پرتجزیہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔
سنہ 2019 میں ماہرین نے یہ بتایا کہ ماہرین نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جاپان کے شہر ہیروشیما کے کچھ ساحلوں پر ریت کے کچھ ذرات دراصل وہ ہیں جو امریکہ کی جانب سے دوسری عالمی جنگ کے آخر میں یہاں چھ اگست سنہ 1945 میں میں گرائے گئے جوہری بم کے دھماکے کے نتیجے میں پھیلے تھے۔
تحقیق لکھنے والوں نے تحریر کیا کہ اس مائع ملبے کے کیمیائی مرکبات ان کے ماخذ کے شواہد فراہم کرتے ہیں خاص طور پر شہر کی تعمیرات کے حوالے سے۔
دوسرے لفظوں میں ان بموں نے عمارتوں کو راکھ میں تبدیل کر دیا، دھماکوں سے پیدا ہونے والی گرمی نے اس گرد کو نئی شکل دی اور دھماکے نے باآخر اس مواد کو اردگرد کی زمین پر پھیلا دیا، اور اسے ہمیشہ کے لیے نشانی بنا دیا۔
یہ بھی اہم ہے کہ جوہری دھماکوں کی باقیات صرف عمارتوں سے باہر ہونے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ اس کمرے میں بھی ہو سکتے ہیں جہاں آپ موجود ہوں۔
جیسے کہ شہری علاقوں میں موجود گرد کے برعکس کسی اور بند جگہ میں موجود گرد کبھی کبھار دہائیوں تک جھاڑی نہیں جاتی، تو اس میں آلودگی کے اثرات پڑے رہ جاتے ہیں۔
سنہ 2003 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق امریکی ریاست نیو جرسی کے 201 گھروں کا سروے ہوا۔
اس کے نتائج سے محققین کو پتہ چلا کہ وہاں سیسے کی موجودگی کے شواہد ملے جس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اس کا تعلق وہاں 20ویں صدی میں فضا میں سیسے کی موجودگی سےہے۔
تاہم وہاں انھیں سیسیم 137، ریڈیو ایکٹو آئی سو ٹوپ کی تھوڑی سی مقدار بھی ملی۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ سنہ 1959 سے 1960 کے دوران امریکہ کی جانب سے زمین کی سطح پر کیے جانے والے جوہری تجربوں کی باقیات ہو سکتی ہیں۔
سیانو اور ان کے دوست اب قدرت پر انسانی تاریخ کے اثرات و شواہد کی مزید تلاش میں ہیں۔
اس ٹیم نے نو یورپی ممالک میں سمندر کی تہہ میں 120 سے زیادہ ٹھوس مواد کے نمونے اس امید کے ساتھ لیے کہ وہ تاریخی واقعات اور ڈی این اے کے شواہد کے ذریعے یا اس مواد پر دھاتوں کی آلودگی کے درمیان کوئی مزید تعلق جان سکیں۔
سیانو کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ہم نیپال میں نکلنے والے ویسوویس نامی آتش فشاں کے اثرات دیکھ سکتے ہیں جو کہ آخری بار سنہ 1994 میں پھٹا تھا۔
یہاں ایک اور جگہ ہے جہاں ٹیم نے شاید تابکاری مواد کی موجودگی کا پتہ لگایا ہے جو کہ چرنوبل کی تباہی کے وجہ نکلا تھا۔ یہ آلودگی 40 فیصد یورپ میں پھیل گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ان سوالات کے جوابات دینے کے لیے تمام مواد موجود ہے۔