Friday, 10 January 2025

*عقیدۂ توحید* *از قلم مفتی محمد اسلم جامعی* (استاذ دارالعلوم محمدیہ قدوائی روڑ)



اسلام کی آمد سے قبل پوری دنیا ضلالت و گمراہی کے اندھیرے میں غرق تھی، لوگ اپنے ہاتھوں کے تراشیدہ بتوں سے اپنی حاجت و ضرورت کا اظہار کرتے، ان کو مشکل کشاں، مولٰی و ملجا تصور کرتے، خود باشندگانِ عرب دورِ جاہلیت میں ہر وہ کام انجام دیتے تھے جس سے انسانیت شرمسار ہوجاتی، افسادِ اعمال کے ساتھ عقائد کے باب میں تعدّدِ اِلہ کی عبادت کے خوگر تھے خود خانۂ خدا میں تین سو ساٹھ پتھر کے تراشیدہ صنم ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے غرض معدودے چند افراد کے علاوہ پوری انسانیت عقیدۂ توحید سے منحرف تھیں، آسمانی ادیان کے علمبردار بھی تعدّدِ اِلہ اور تثلیث کے عقیدۂ بد میں مبتلا تھے، اسلام نے انسانیت کو امن امان کا پیغام دیا دستورِ حیات دے کر زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھایا اور پورے زور و شور سے عقیدۂ توحید کی تعلیم دی، تعدّدِ اِلہ اور تثلیث کے عقیدے کی مکمّل پر تردید کرتے ہوئے ضربِ کاری لگائی اور توحید کے متصادم نظریہ شرک کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیا، اسلام اور اہلِ اسلام کو دیگر ادیان اور مذاہب کے درمیان ممتاز کرنے میں عقیدہ توحید ہی ہے، قرآن کریم میں چار طرح کے مضامین ہے، *١* عقائد *٢* احکام *٣* قصص *٤* امثال پھر عقائد میں بنیادی طور پر تین عقائد کو ثابت کیا گیا، توحید، رسالت اور آخرت، عقیدۂ توحید کا مطلب ہے کہ انسان کائنات کے ذرّے ذرّے کو صرف ایک ذات کی مخلوق سمجھے، اسی کو پُوجے، اُسی کو چاہیے، اُسی سے ڈرے اُسی سے مانگے اور دل میں یہ یقین رکھے کہ اس بیکراں کائنات کا ذرّہ اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے، اور کوئی دوسرا اس کی توفیق کے بغیر اُسے اِدھر سے اُدھر ہلا بھی نہیں سکتا ، چنانچہ علامہ حافظ ابن احمد حکمی نے عقیدۂ توحید کی بڑی جامع تعریف فرمائی کہ اَلْأحْدُ الْفَرْدُ الَذّيْ لَا ضِدَّ لَهُ وَ لاَ نِدَّ لَهُ وَ لاَ شَرِيْكَ لَهُ فِيْ اِلٰهِيَّتِهٖ وَ رُبُوْبِيَّتِهٖ وَلَا مُتَصَرِّفَ مَعَهٗ فِيْ ذَرَّةٍ مِنْ مَلَكُوْتِهُٖ وَلَا نَظِيْرَلَهٗ فِيْ شَيَءٍ مِنْ اَسْمَائِهٖ وَ صِفَاتِهٖ
وہ یکتا اور تنہا ہے، جس کا اس کی عبادت اور ربوبیت میں کوئی مقابل نہیں،اور نہ برابر ہے، نہ کوئی شریک ہے اور نہ اس کے ساتھ اس کی حکومت کے ذرہ میں کوئی تصرف کرنے والا ہے، اور نہ اس کے ناموں و صفتوں میں اس کی کوئی مثال اور نظیر ہے 
( معارج الوصول جلد ١ صفحہ٨٨ ) 
اس کی اور زیادہ وضاحت حضرت مفتی شفیع صاحب رح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمام دنیا کے مذاہب میں، اسلام کا طغرائے امتیاز اور اس کا رکنِ اعظم عقیدۂ توحید ہے ، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ایک اور اکیلا جاننے کا نام توحید نہیں، بلکہ اس کو تمام صفاتِ کمال میں یکتا و بے مثل ماننے اور اس کے سوا کسی مخلوق کو ان صفاتِ کمال میں اس کا سہیم شریک نہ سمجھنے کو توحید کہتے ہیں،
اللہ تعالیٰ کی صفات کمال، حیات ، علم، قدرت ، سمع ، بصر، اراده ، مشیت خلق ، رزق وغیرہ وہ ان سب صفات میں ایسا کامل ہے کہ اس کے سوا کوئی مخلوق کسی صفت میں اس کے برابر نہیں ہو سکتی،
(معارف القرآن جلد ٣ صفحہ ٣٤٤ )

عقیدۂ توحید انسان کو انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے جو انسان کی تمام مشکلات کا حل، اور ہر حالت میں اس کے لئے پناہ گاہ ہر غم و فکر میں اس کا غمگسار ہے بلکہ عقیدۂ توحید ہی دنیا میں امن امان اور چین و سکون کا ضامن ہے، موجودہ دور میں نت نئے فِرقِ باطلہ مختلف ناموں سے ظاہر ہورہے ہیں جو اہلِ ایمان کو عقیدۂ توحید و رسالت سے متنفر کررہے ہیں عقیدۂ توحید و رسالت ہی دین کی اساس اور بنیاد ہے اگر اسی میں ہی تزلزل پیدا ہوگیا تو سارے اعمال اکارت ہوجائے گے اس لیے عقیدۂ توحید و رسالت پر ثبات قدمی کے ساتھ قائم رہے اور اپنی اولاد کے عقائد کی بھی فکر کریں خداوند قدوس کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام بارگاہِ ایزدی میں دعا کررہے ہیں کہ وَجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَعْبُدَ الْاَصْنَام ( مجھے اور میری اولاد کو شرک سے محفوظ رکھے) اس الفاظِ قرآنی پر غور کریں کہ جذبۂ خلّت سے سرشار حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی ذات اور اولاد (جو خود پیغمبر ہے) کے تئیں کس طرح فکرمند ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوری زندگی عقیدۂ توحید کے تئیں قربانیوں کی نذر کردی، والدین، خاندان، قوم اور حکمرانِ وقت کی مخالفت مول لی، توحید ہی کی خاطر آگ میں کودنا قبول کیا، اپنے گھر کو چھوڑنا منظور کیا، وطن کو خیر باد کہا، لیکن شرک کو بہر طور مسترد کیا، پوری زندگی عجیب شانِ اطاعت سے گزاری بیوی بچے کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑا، ذبحِ پسر تیار پر ہوگئے، مگر شرک کا ایسا خوک کہ بارگاہِ الہی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھیں تو اپنے لئے اور حضرت اسماعیل و حضرت اسحاق علیہما السلام جیسی برگزیدہ اولاد کے لیے شرک سے حفاظت کے لیے دعا مانگی، ہمارا زمانہ جتنا مشکوة نبوت سے دور ہوتا جائے گا، پے درپے فتنے رونما ہوتے رہے گے بلکہ بعض روایات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فتنوں کا نزول بارانِ رحمت کے قطروں کی طرح ہوگا جو انسانی کی عقلوں کو حیران کردے گا، اس لئے اپنی ذات کے ساتھ اپنی اولاد کے اعمال و عقائد کی بھی فکر کریں مکمّل ان کی نگرانی کریں، کس کا بیان سنتے ہیں، کن لوگوں کے ساتھ نشست برخاست ہے، اس بابت بھی مکمّل جانکاری رکھیں تاکہ اولاد کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہوسکے، 

*منجانب ادارہ پیغامِ جامعی مالدہ شیوار مالیگاؤں*

*🔴سیف نیوز بلاگر*

کراچی میں 6 منزلہ رہائشی عمارت گرگئی ، 9 افراد جاں بحق ، متعدد زخمی کراچی: لیاری بغدادی میں 6 منزلہ رہائشی عمارت گرگ...