ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے،جو مختلف قوموں کا مسکن اور مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہے،اس کی گود میں گنگا جمناکی روانی، لال قلعہ اورجامع مسجد کی مضبوطی وپاکیزگی، اور تاج محل کی خوبصورتی ہے، مگر، جب اس جنت نما ملک پر، تثلیث کےعلمبرداروں اور برطانوی سامراج کے انگریزوں نے ظالمانہ و جابرانہ طور پر قبضہ کرلیا، توملت کے پاسبانوں اور جیالوں نے برادرانِ وطن کو ساتھ لے کرایک طویل کاوش کے بعد، داغِ یتمی، نالۂ نیم شبی، سنّتِ یوسفی اور خونِ جگر بہا کرآزادئ ہند کے خواب کوشرمندۂ تعبیر کیا، تقریباً ایک صدی تک( 1757سے 1857 تک) مسلمانوں نے تنِ تنہااس ملک کو آزاد کرانے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا،چنانچہ موجودہ دور میں ہماری نئی نسل رسمی طور پر 15 اگست اور 26 جنوری پر نشۂ مسرّت میں مخمور ہوتی ہے، ان کو اس بات علم بھی نہیں ہوتا کہ مسجدوں اورخانقاہوں میں گیسوئے دین سنوارنے والے علماء کرام، نے آزادی کے حصول کے لیے اپنا لہو بہایا، اور یہ لہو ایک دو دن نہیں، ایک دو مہینے نہیں، یا ایک دو سال تک نہیں بہا، بلکہ دو صدیوں تک بہتا رہا ہے، 1757ء میں سراج الدولہ نے اپنے لہو سے حصولِ آزادی کی جو مشعل روشن کی تھی، وہ ملک بھر میں برسوں گردش کرتی رہی، کبھی یہ مشعل ٹیپو سلطان کے ہاتھ میں رہی، اور کبھی شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رح نے اُسے روشن رکھا،اور کبھی حضرت سید احمد شہید رح اور حضرت سیداسماعیل شہید رح نے اُسے قریہ قریہ، بستی بستی اُٹھائے پھرتے رہے، کبھی یہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رح اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رح کے ہاتھوں نے تھامی، کبھی اس میں حضرت شیخ الہند اور ان کے شاگردوں کے خون سے روشنی رہی، ان بزرگوں کی قیادت میں ہزاروں، لاکھوں، لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، گولیاں کھائیں، پھانسیوں پر لٹکے، کتنے ہی لوگوں نے زندگی کے ماہ وسال قید و بند کی صعوبتوں میں گزارے، جلاوطن ہوئے، اس داستانِ آزادی کا ہر حرف اور ہر لفظ ہمارے بزرگوں کے خونِ شہادت سے رنگین ہے، اس لئے لیے ہمیں اپنے تابناک ماضی سے واقفیت رکھنا ضروری ہے کیونکہ جو قوم اپنے ماضی سے کٹ جاتی ہے، وہ کبھی بھی مستقبل میں کامیابی کے نقوش ثبت نہیں کرپاتی، کامیاب منصوبے ہمیشہ ماضی کی تاریخ سامنے رکھ کر ہی بنائے جاتےہیں، اور جب ماضی کوبھلا دیا جائے، یا تاریخ کو مسخ کردیا جائے یا اس سے دانستہ تجاہل برتاجائے تو پھر اخلاقی زوال قوم کا مقدر بن جاتا ہے، اس لئے اپنے روشن و تابناک ماضی اور اسلاف و ملت کے جیالوں کے زرین کارناموں سے وابستگی رکھنا زندہ دلی کی علامت ہے راقم السطور نے یومِ آزادی کے عنوان سے چند ماہ قبل ایک طویل مضمون زیبِ قرطاس کیا تھا اور مستند حوالہ جات کی بنیاد پر جنگ آزادی میں مسلم علماء و عوام کی قربانیوں کو اجاگر کرنے کی اپنی سی کوشش تھی، اس لیے اس مضمون میں جنگ آزادی پر خامہ فرسائی کے بجائے دستورِ ہند کے تئیں کچھ باتیں زیبِ قرطاس کرتا ہوں، کیونکہ جس طرح مسلمانوں نے استخلاصِ وطن کے تئیں ایک طویل قربانی دی اسی طرح ملک کو سیکولر بنانے اور دستورِ ہند میں مسلمانانِ ہند کو یکساں حقوق دلانے میں بھرپور نمائندگی کی، جو آگے مضمون میں، اس کی تفصیل آئے گی، مگر آئینِ ہند کے نفاذ کو سمجھنے کے لیے اجمالی طور پر، انگریزوں کے اقتدار اور باشندگانِ ہند کی کوششوں پر نگاہ ڈالے کہ جب تاجرانِ متاع فروش نے اقتدار کی ہوس میں ظالمانہ و جابرانہ تسلط قائم کرنے کی مذموم کوشش کی تو مسلمانانِ ہند نے ان کو ملک بدر کرنے کی اپنی بساط بھر کوششیں کی، جو تاریخ کے ذرین اوراق میں ثبت ہے، غرض ایک طویل جد جہد اور بے شمار قربانیوں کے بعد بالآخر 15 اگست 1947 میں ملک آزاد ہوا، پھر تقسیم کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جس کی المناک داستان بیان کرنے سے قلم قاصر ہے، اور بھلا اپنوں کی رسوائی، بربادی قتل و غارت گری کا تحمل کسے ہوسکتا ہے، تفصیلات کے لیے مولانا محمد میاں دیوبندی رح صاحب کی کتاب، علماء حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے، تحریک آزادئ ہند میں مسلم علماء و عوام کا کردار، مفتی سلمان منصور پوری صاحب ، اور تحریک آزادی اور مسلمان، مولانا نظام اسیر ادروی رح صاحب کا مطالعہ فرمائیں،
*دستورِ ہند کے تئیں کاوشات*
طویل مسافت طے کرتے ہوئے کاروانِ آزادی 15 اگست 1947 کو 14_15 کی درمیانی شب میں اپنی منزل پر پہنچ گیا، جب پورا ہندوستان محوِ خواب تھا تو ہندوستان کا مقدر جاگ گیا اور آل انڈیا ریڈیو سے ہندوستان کی آزادی کا اعلان ہوا، ملک میں انگریزوں کا 1935 کا بنائیں ہوا ایکٹ نافذ تھا اور اسی کے مطابق ملک کا نظام چلتا رہا مگر جب غیر منقسم ہندوستان میں الیکشن کے ذریعہ قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی، جس کے ممبران کی تعداد کل ملا کر تین سو ترانوے تھی، اس اسمبلی کا پہلا اجلاس 9 دسمبر 1946 کو ہوا جس کے سب سے عمر رسیدہ رکنِ اسمبلی ڈاکٹر سچتا نند سنہا صاحب کو عارضی طور پر اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا، پھر 11 ستمبر 1947 کو تمام اراکین نے بالاتفاقِ رائے ڈاکٹر راجندر پرشاد صاحب کو اسمبلی کا صدر منتخب کرلیا تو اسمبلی نے طے کیا کہ آزاد ہندوستان کا اپنا آئین بنایا جائے جس میں ملک کے تمام باشندوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہو، اور ان کی خوش حال اور پُر امن زندگی کی ضمانت بھی اسی مقصد کے تئیں اسمبلی نے آئین سازی کے لیے 13 کمیٹیاں بنائی، ان کمیٹیوں نے اپنے اپنے مسوّدات تیار کئے، پھر اسمبلی نے سات افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے صدر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے، اس کمیٹی کے ممبران نے تمام مسوّدات کا گہرائی، باریک بینی اور دقتِ نظری سے مطالعہ کیا، مطالعہ کے بعد ایک نیا مسوّدہ تیار کیا اور 4 نومبر 1947 کو اس مسوّدۂ آئین کو بحث و نظر، ترمیم و تنسیخ اور حذف و اضافے کے لئے قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا ، جنوری 1948 کو یہ مسوّدۂ قانون عام باشندگانِ ہند کے لئے شائع کردیا کیا گیا، تو دو ہزار سے زائد ترمیم و تنسیخ کے لیے تجاویز موصول ہوئی، پھر 26 نومبر 1950 کو یہ مسوّدۂ قانون، دستور ساز اسمبلی میں پیش ہوا، بحث ونظر کے بعد، حضرت مولانا حسرت موہانی رح کے علاوہ تمام ممبران نے 26 جنوری 1950 کے اجلاس میں اس کی ہندی اور انگریزی کاپیوں پر دستخط کرکے سندِ قبولیت سے سرفراز کیا غرض دو سال گیارہ ماہ اٹھارہ دن کی مسلسل محنت اور کوشش اور ایک کروڑ روپے کے صرفہ سے ملک کا آئین تیار ہوا، اس دستور کا نفاذ 26 جنوری 1950 کو ہوا، تو اس دن کو یومِ جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے
*جاری..............................*