گاندھی جی کا قتل : کیا روکا نہیں جاسکتا تھا ؟
تکلف برطرف : سعید حمید
مہاتما گاندھی مرڈر کیس کا ایک اہم مجرم تھا
وشنو رام کرشناکرکرے ، ایک چت پاون برہمن
جوہندو مہاسبھا کا ایک لیڈر بھی تھا ۔ گاندھی مرڈر پلاٹ میںوہ پوری طرح شامل تھا ۔
جیون لال کپور کمیشن کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کرکرے سمیت
گاندھی مرڈر کیس کے مجرموں کو اس خطرناک منصوبے کی سازش ،
منصوبہ بندی اور اس کو انجام دینے کے دوران کسی بھی قسم کی مزاحمت یا
رکاوٹ کا سامنا نہیںکرنا پڑا ۔
انہیں پولس کا کوئی خوف اور ڈر نہیںتھا ، یہ مجرمین ہندو مہا سبھا بھون سے لیکر
عام ہوٹلوں ،یا ریلوے اسٹیشنوں ، ریلوے پلیٹ فارم پر ہی سوتے
اور وقت گذاری کرتے رہے ، لیکن پولس ان کے پاس کہیں پھٹکتی بھی نظر نہیںآئی
حالانکہ کہنے کیلئے ان کا پولس ریکارڈ بھی تھا اور ان پر،
ان کی تنظیم اور ساتھیوں پر انٹلی جنس کی نگاہ بھی تھی ۔۲۰
جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو ان کی گینگ نے برلا ہاؤس میںبم بلاسٹ کیا
لیکن گاندھی جی پر گولیاں چلانے میں ناکامیاب رہے پھر بھی اس ناکام
قاتلانہ حملے کے دس دنوں میںہی یعنی
۳۰ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو اسی گینگ راشٹر پتا کا کام تمام کردیا اور پولس منہ دیکھتی رہ گئی ۔
وشنو رام کرشنا کر کرے کو اس کیس میںعمر قید کی سزا ہوئی ۔
مہاتما گاندھی پر ۲۰ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کے ناکام حملے اور ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ ٔ
کو ان کے قتل سے قبل اور بعد کے ایام کرکرے نے اس سازش کو انجام دینے کیلئے
کیسے گذارے اس کا اندازہ مندرجہ ذیل تفصیلات سے کیا جاسکتا ہے ۔
مہاتما کا ایک قاتل ؛ یہ بھی ایک کرکرے :
وشنو رام کرشنا کرکرے گاندھی مرڈر کیس کا ایک اہم مجر م ، احمد نگر سے تعلق رکھتا تھا ۔
اس کا احمد نگر میں ایک ہوٹل دکن گیسٹ ہاؤس نام سے تھا ، ا
ور وہ مقامی ہندو مہاسبھا کا اہم ممبر و لیڈر تھا ۔
وہ یہاں پاکستان سے آنے والے ہندو شرنارتھیوں میں کام کرتا تھا ،
ہندو مہا سبھا کی سرگرمیوں پر روپیہ خرچ کرتا تھا ، شرنارتھیوں میںسرگرم رہنے کی وجہ سے ہی
مدن لال پاہوا اس کی طرف متوجہ اور متعارف ہوا ۔ مدن لال پاہوا اس زمانے میںاحمد نگر میں
اپنی مسلم دشمن سرگرمیوں اور مقامی کانگریس لیڈر ان جیسے راؤ صاحب پٹوردھن کی
جارحانہ مخالفت کی وجہ سے خاصا بدنام تھا ۔
اس بات کے بھی ثبوت ملے ہیںکہ اپنا کاروبار شروع کرنے کیلئے
کر کرے نے گاندھی مرڈر کیس کے دوسرے مجرم نارائن آپٹے سے بھی مالی مدد لی تھی جو
اس زمانے میںاحمد نگر میںایک اسکول میں ٹیچر کی نوکری کرتا تھا ۔
کمیشن کی سماعت میں ایس وی کیتکر نے کر کرے کی شناخت کرتے ہوئے یہ کہا تھا
کہ یہ وہی شخص ہے جس نے اسے وہ ہتھیار اوربارود دئے تھے جو ( پولس نے )
اس کے پاس سے ضبط کئے ۔اور اسی لئے کرکرے کے گھر اور ہوٹل کی بھی تلاشی لی گئی تھی ۔
گاندھی قتل کے کلیدی مجرم ناتھو رام گوڈسے اور نارائن آپٹے کرکرے سے ۲
جنوری ۱۹۴۸ ٔ اور ۳ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو اس کے ہوٹل پر احمد نگر میں ملے تھے ۔
۶ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو کرکرے احمد نگر سے روانہ ہوگیا ۔
۷ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو وہ نارائن آپٹے سے اس کے اخبار آگرنی کے دفتر ( پونے ) میںملا ۔۹
جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو اس نے مدن لال پاہوا کی ملاقات نارائن آپٹے سے کروائی ،
اسی دوپہر وہ مدن لال کو لیکر دوسرے مجرم بڑگے کے گھر پہنچا ، تاکہ سامان یعنی ہتھیار اور بم وغیرہ دیکھے ۔
۱۰ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو کرکرے ممبئی پہنچا، وہاں سے وہ تھانہ میں جی ایم جوشی کے گھر گیا ۔
۱۱ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو اس نے ممبئی میںہندو مہاسبھا کے دفتر میںمدن لال پاہوا سے ملاقات کی ،
وہاں سے وہ چمبور ، ممبئی کے مضافات کی بستی میں پہنچا جہاں پاکستان سے آنے والے
ہندو شرنارتھیوں کا کیمپ تھا ۔مدن لال پاہوا اس کے ساتھ ہی تھا ۔
۱۳ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو وہ دادر میں ساورکر کے گھر پہنچا تاکہ ہندو مہا سبھا چیف سے ملاقات کرے
لیکن اس دن اس کی ملاقات ساورکر سے نہیں ہوسکی ۔
دوسرے دن اس کی ملاقات ساورکر سے ہوئی اور اس ملاقات میںاسنے ساورکر سے مدن لال پاہوا کو ملوایا ۔
اس کے بعد شام میں چھ بجے وہ مدن لال پاہوا کیساتھ پروفیسر جین سے ملاقات کیلئے گیا ۔
۱۵ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو آپٹے ، بڑگے اور کرکرے ؛ ناتھو رام گوڈسے
اور مدن لال پاہوا کے ساتھ بھولیشور گئے ، وہاں انہوں نے دکشٹ جی مہاراج سے ملاقات کی
اور ان کے پاس سے سامان یعنی ہتھیا ، بم ، وغیرہ لیا ۔مدن لال پاہوا اور کرکرے
پیشاور ایکسپریس کے ذریعہ دہلی روانہ ہوئے اور۱۷جنوری ۱۹۴۸ ٔ کو وہ دہلی پہنچ گئے ۔
ان کے ساتھ انگچیکر نامی شخص بھی تھا ، وہ تینوں ہندو شریف ہوٹل میںمقیم ہوئے
۔شام میںبڑگے برلا دھرم شالہ میں آیا تب وہاں کرکرے نے اس سے ملاقات کی ۔
اور انہوں نے دوسرے دن یعنی ۱۸ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کی صبح ملنے کا وقت مقرر کیا ۔
۱۸ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کی صبح میںکرکرے نے مرینا ہوٹل دہلی میں نارائن آپٹے اور ناتھو رام گوڈسے
سے ملاقات کی ۔ناشتہ کے بعد وہ ، آپٹے اور ناتھو رام گوڈسے ؛ تینوں ہی گوپال گو ڈسے سے ملنے کیلئے
اس لئے وہ سب ہندو مہا سبھا بھون میں واپس لوٹ آئے ۔اس دن صبح ساڑھے گیارہ بجے گوڈسے
نے کرکرے کو ایک چٹھی دی ، یہ چٹھی ہندو مہاسبھا بھون کےسیکریٹری کے نام لکھی گئی تھی ،
جس میںاسے ایک کمرہ الاٹ کرنے کیلئے کہا گیا تھا ، اس لئے کرکرے کو روم نمبر ۳ الاٹ کیا گیا ۔
دوپہر میںساڑھے تین بجے آپٹے ، گوڈسے اور کرکرے برلا ہاؤس گئے
اور وہاں سے مرینا ہوٹل لوٹے ۔کرکرے نے آپٹے اور گوڈسے کیاتھ رات کا کھانا کھایا اور پھر وہاں
سے وہ تینوں نئی دہلی ریلوے اسٹیشن چلے گئے یہ دیکھنے کیلئے کہ گوپال گوڈسے پہنچا ،یا نہیں
۔لیکن تب بھی انہیںگوپال گوڈسے وہاں نہیںملا اس لئے وہ لوگ پھر سے رات میںواپس مرینا ہوٹل آگئے ۔
جب کہ واقعہ یہ تھا کہ گوپال گوڈسے پلان کے مطابق نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچ چکا تھا
لیکن وہ ریلوے پلیٹ فارم پر ہی سو گیا ۔
تیسرے دن یعنی ۱۹جنوری ۱۹۴۸ ٔ کی صبح وہ تینوں ، کرکرے ، گوڈسے اور آپٹے برلا ہاؤس پہنچے
تاکہ وہاں جو پرارتھنا سبھا ہوتی ہے اس کا جائزہ لیں
۔اس دوران گوپال گوڈسے بھی صبح ساڑھے گیارہ بجے ہندو مہاسبھا بھون پہنچ گیا ۔
کرکرے پھر مدن لال پاہوا کے ساتھ ہندو شریف ہوٹل لوٹ گیا
اور رات میں مدن لال پاہوا اور گوپال گوڈسے کو لیکر آٹھ بجے ہندو مہاسبھا بھون پہنچا ۔
رات میں ۹ بجے کرکرے اور پاہوا گولے مارکیٹ گئے اور وہاں انہوں نے رات کا کھانا کھایا۔
اسی شام میںآپٹے ، گوپال گوڈسے ، بڑگے اور کرکرے نے ہندو مہا سبھا بھون کے پاس واقع جنگل میں ایک میٹنگ لیکر ( مہاتما گاندھی پر ) گولی چلانے کے منصوبے پر غور و خوص کیا تھا ۔آپٹے اور کرکرے مرینا ہوٹل آکر سوگئے ، جبکہ دیگر مجرمین ہندو مہاسبھا بھون چلے گئے ۔
۲۰ جنوری ۱۹۴۸ ٔ کی صبح کرکرے ہندو مہا سبھا بھون آیا اس کے بعد کر کرے اور مدن لال پہلے برلا ہاؤس اور پھر وہاں سے مرینا ہوٹل چلے گئے ۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ان سب ( کرکرے ، آپٹے ، مدن لال ، گوپال گوڈسے ) نے مرینا ہوٹل میںملاقات کی ۔ اس میٹنگ میںسب نے مختلف قسم کے ہتھیار آپس میںتقسیم کئے ۔
کرکرے اور مدن لال ٹھیک چار بجے برلا ہا وٌس پہنچ گئے ۔
(مدن لال پاہوا کے ذمہ بم بلاسٹ کا کام سونپا گیاتھا ۔)،
ٹھیک چاربجکر ۴۵ منٹ پر بم دھماکہ ہوا ۔دھماکہ سے افراتفری مچ گئی
( اس دوران مدن لال پاہوا رنگے ہاتھوں گرفتار ہو چکا تھا اور
کرکرے و گوپال گوڈسے کو مہاتما گاندھی پر گولی چلانے کی ذ مہ داری دی گئی تھی ، بم
بلاسٹ سے ہونےوالی افراتفری میں وہ لوگ اپنا کام نہیں کرسکے اور واپس لوٹ گئے ) ۔
۲۰؍ جنوری ۱۹۴۸ ء : ایک ناکام بم بلاسٹ ، ایک مجرم رنگے ہاتھوں گرفتار ؛
اگر دہلی اور بامبے پولس چاہتی ، غفلت ، لاپرواہی کی مجرمانہ حرکت نہیں کرتی تو پوری گینگ کو
چند دنوں میں گرفتار کیا جاسکتا تھا اور گاندھی مرڈر کی سازش کو ناکام بنایا جا سکتا تھا ۔
افسوس کہ ایسا نہیں ہوا ۔
______
افسانہ ۔۔۔ لحاف
افسانہ نگار ۔ عصمت چغتائی
جب میں جاڑوں میں لحاف اوڑھتی ہوں، تو پاس کی دیوا روں پر اس کی پرچھائیں ہاتھی
کی طرح جھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور ایک دم سے میرا دماغ بیتی ہوئی دنیا کے پردوں میں دوڑنے بھاگنے لگتا ہے۔ نہ جانے کیا کچھ یاد آنے لگتا ہے۔
معاف کیجئے گا، میں آپ کو خود اپنے لحاف کا رومان انگیز ذکر بتانے نہیں جا رہی ہوں۔ نہ لحاف سے کسی قسم کا رومان جوڑا ہی جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں کمبل آرام دہ سہی، مگر اس کی پرچھائیں اتنی بھیانک نہیں ہوتی جب لحاف کی پرچھائیں دیوار پر ڈگمگا رہی ہو۔ یہ تب کا ذکر ہے جب میں چھوٹی سی تھی اور دن بھر بھائیوں اور ان کے دوستوں کے ساتھ مارکٹائی میں گزار دیا کرتی تھی۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتاکہ میں کم بخت اتنی لڑاکا کیوں ہوں۔ اس عمر میں جب کہ میری اور بہنیں عاشق جمع کر رہی تھیں میں اپنے پراۓ ہر لڑکے اور لڑکی سے جو تم بیزار میں مشغول تھی۔
یہی وجہ تھی کہ اماں جب آگرہ جانے لگیں، تو ہفتے بھر کے لۓ مجھے اپنی منہ بولی بہن کے پاس چھوڑ گئیں۔ ان کے یہاں اماں خوب جانتی تھی کہ چوہے کا بچہ بھی نہیں اور میں کسی سے لڑ بھڑ نہ سکوں گی۔ سزا تو خوب تھی! ہاں تو اماں مجھے بیگم جان کے پاس چھوڑ گئیں۔ وہی بیگم جان جن کا لحاف اب تک میرے ذہن میں گرم لوہے کے داغ کی طرح محفوظ ہے۔ یہ بیگم جان تھیں جن کے غریب ماں باپ نے نواب صاحب کو اسی لۓ داماد بنالیا کہ وہ پکی عمر کے تھے۔ مگر تھے نہایت نیک۔ کوئی رنڈی بازاری عورت ان کے یہاں نظر نہیں آئی۔ خود حاجی تھے اور بہتوں کو حج کرا چکے تھے۔ مگر انہیں ایک عجیب و غریب شوق تھا۔ لوگوں کو کبوتر پالنے کا شوق ہوتا ہے، بٹیرے لڑاتے ہیں، مرغ بازی کرتے ہیں۔ اس قسم کے واہیات کھیلوں سے نواب صاحب کو نفر ت تھی۔ ان کے یہاں تو بس طالب علم رہتے تھے۔ نوجوان گورے گورے پتلی کمروں کے لڑکے جن کا خرچ وہ خود برداشت کرتے تھے۔
مگر بیگم جان سے شادی کر کے تو وہ انہیں کل ساز و سامان کے ساتھ ہی گھر میں رکھ کر بھول گۓ اور وہ بے چاری دبلی پتلی نازک سی بیگم تنہائی کے غم میں گھلنے لگی۔
نہ جانے ان کی زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ وہاں سے جب وہ پیدا ہونے کی غلطی کر چکی تھی، یا وہاں سے جب وہ ایک نواب بیگم بن کر آئیں اور چھپر کھٹ پر زندگی گزارنے لگیں۔ یا جب سے نواب صاحب کے یہاں لڑکوں کا زور بندھا۔ ان کے لۓ مرغن حلوے اور لذیذ کھانے جانے لگے اور بیگم جان دیوان خانے کے درزوں میں سے ان لچکتی کمروں والے لڑکوں کی چست پنڈلیاں اور معطر باریک شبنم کے کرتے دیکھ دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگیں۔
یا جب سے، جب وہ منتوں مرادوں سے ہار گئیں، چلے بندھے اور ٹوٹکے اور راتوں کی وظیفہ خوانی بھی چت ہو گئی۔ کہیں پتھر میں جونک لگتی ہے۔ نواب صاحب اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوۓ۔ پھر بیگم جان کا دل ٹوٹ گیا اور وہ علم کی طرف متوجہ ہوئیں لیکن یہاں بھی انہیں کچھ نہ ملا۔ عشقیہ ناول اور جذباتی اشعار پڑھ کر اور بھی پستی چھاگئی۔ رات کی نیند بھی ہاتھ سے گئی اور بیگم جان جی جان چھوڑ کر بالکل ہی یاس و حسرت کی پوٹ بن گئیں۔ چولہے میں ڈالا ایسا کپڑا لتا۔ کپڑا پہنا جا تا ہے، کسی پر رعب گانٹھنے کے لۓ۔ اب نہ تو نواب صاحب کو فرصت کہ شبنمی کرتوتوں کو چھوڑ کر ذرا ادھر توجہ کریں اور نہ وہ انہیں آنے جانے دیتے۔ جب سے بیگم جان بیاہ کر آئی تھیں رشتہ دار آکر مہینوں رہتے اور چلے جاتے۔ مگر وہ بے چاری قید کی قید رہتیں۔
پھرتیلے چھوٹے چھوٹے ہاتھ، کسی ہوئی چھوٹی سی توند۔ بڑے بڑے پھولے ہوۓ ہونٹ، جو ہمیشہ نمی میں ڈوبے رہتے اور جسم میں عجیب گھبرانے والی بو کے شرارے نکلتے رہتے تھے اور یہ نتھنے تھے پھولے ہوۓ، ہاتھ کس قدر پھرتیلے تھے، ابھی کمر پر، تو وہ لیجۓ پھسل کر گۓ کولھوں پر، وہاں رپٹے رانوں پر اور پھر دوڑ ٹخنوں کی طرف۔ میں تو جب بھی بیگم جان کے پاس بیٹھتی یہی دیکھتی کہ اب اس کے ہاتھ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔
گرمی جاڑے بیگم جان حیدر آبادی جالی کارگے کے کرتے پہنتیں۔ گہرے رنگ کے پاجامے اور سفید جھاگ سے کرتے اور پنکھا بھی چلتا ہو۔ پھر وہ ہلکی دلائی ضرور جسم پر ڈھکے رہتی تھیں۔ انہیں جاڑا بہت پسند تھا۔ جاڑے میں مجھے ان کے یہاں اچھامعلوم ہوتا۔ وہ ہلتی جلتی بہت کم تھیں۔ قالین پر لیٹی ہیں۔ پیٹھ کھج رہی ہے۔ خشک میوے چبا رہی ہیں اور بس۔ ربو سے دوسری ساری نوکرانیاں خار کھاتی تھیں۔ چڑیل بیگم جان کے ساتھ کھاتی، ساتھ اٹھتی بیٹھتی اور ماشاءاللہ ساتھ ہی سوتی تھی۔ ربو اور بیگم جان
عا م جلوؤں اور مجموعوں کی دلچسپ گفتگو کا موضوع تھیں۔ جہاں ان دونوں کا ذکر آیا اور قہقہے اٹھے۔ یہ لوگ نہ جانے کیا کیا چٹکے غریب پر اڑاتے۔ مگر وہ دنیا میں کسی سے ملتی نہ تھیں۔ وہاں تو بس وہ تھیں اور ان کی کھجلی۔
میں نے کہا کہ اس وقت میں کافی چھوٹی تھی اور بیگم جان پر فدا۔ وہ مجھے بہت ہی پیار کرتی تھیں۔ اتفاق سے اماں آگرے گئیں۔ انہیں معلوم تھا کہ اکیلے گھر میں بھائیوں سے مار کٹائی ہوگی۔ ماری ماری پھروں گی۔ اس لۓ وہ ہفتے بھر کے لۓ بیگم جان کے پاس چھوڑ گئیں۔ میں بھی خوش اور بیگم جان بھی خوش۔ آخر کو اماں کی بھابھی بنی ہوئی تھیں۔
سوال یہ اٹھا کہ میں سوؤں کہاں؟ قدرتی طور پر بیگم جان کے کمرے میں۔ لہذا میرے لۓ بھی ان کے چھپر کھٹ سے لگا کر چھوٹی سی پلنگڑی ڈال دی گئی۔ گیارہ بجے تک تو باتیں کرتے رہے، میں اور بیگم جان تاش کھیلتے رہے اور پھر میں سونے کے لۓ اپنے پلنگ پر چلی گئی اور جب میں سوئی تو ربو ویسی ہی بیٹھی ان کی پیٹھ کھجا رہی تھی۔ ”بھنگن کہیں کی۔“ میں نے سوچا۔ رات کو میری ایک دم سے آنکھ کھلی تو مجھے عجیب طرح کا ڈر لگنے لگا۔ کمرہ میں گھپ اندھیرا اور اس اندھیرے میں بیگم جان کا لحاف ایسے ہل رہا تھا جیسے اس میں ہاتھی بند ہو۔ بیگم جان…. میں نے ڈری ہوئی آواز نکالی، ہاتھ ہلنا بند ہو گیا۔ لحاف نیچے دب گیا۔
”کیا ہے، سو رہو….“ بیگم جان نے کہیں سے آواز دی۔
”ڈر لگ رہا ہے۔“ میں نے چوہے کی سی آواز سے کہا۔
”سو جاؤ۔ ڈر کی کیابات ہے۔ آیت الکرسی پڑھ لو۔“
”اچھا…. میں نے جلدی جلدی آیت الکرسی پڑھی مگر یَعْلَمُ مَا بَیْنَ پر دفعتاً آکر اٹک گئی۔ حالانکہ مجھے اس وقت پوری یاد تھی۔
”تمہارے پاس آجاؤں بیگم جان۔“
”نہیں بیٹی…. سو رہو….“ ذرا سختی سے کہا۔
اور پھر دو آدمیوں کے کھسر پھسرکرنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ ہاۓ رے دوسرا کون…. میں اور بھی ڈری۔
”بیگم جان….چور تونہیں۔“
”سوجاؤ بیٹا…. کیسا چور….“ ربو کی آواز آئی۔ میں جلدی سے لحاف میں منہ ڈال کر سو گئی۔
صبح میرے ذہن میں رات کے خوفناک نظارے کا خیال بھی نہ رہا۔ میں ہمیشہ کی وہمی ہوں۔ رات کو ڈرنا۔ اٹھ اٹھ کر بھاگنا اور بڑبڑانا تو بچپن میں روز ہی ہوتا تھا۔ سب تو کہتے تھے کہ مجھ پر بھوتوں کا سایہ ہوگیا ہے۔ لہٰذا مجھے خیال بھی نہ رہا۔ صبح کو لحاف بالکل معصوم نظر آرہا تھا مگر دوسری رات میری آنکھ کھلی تو ربو اور بیگم جان میں کچھ جھگڑا بڑی خاموشی سے چھپڑ کھٹ پر ہی طے ہو رہا تھا اور مجھے خاک سمجھ نہ آیا۔ اور کیا فیصلہ ہوا، ربو ہچکیاں لے کر روئی پھر بلی کی طرح چڑ چڑ رکابی چاٹنے جیسی آوازیں آنے لگیں۔ اونہہ میں گھبرا کر سو گئی۔۔
ان رشتہ داروں کو دیکھ کر اور بھی ان کا خون جلتا تھا کہ سب کے سب مزے سے مال اڑانے، عمدہ گھی نگلنے، جاڑوں کا ساز و سامان بنوانے آن مرتے اور باوجود نئی روئی کے لحاف کے بڑی سردی میں اکڑا کرتیں۔ ہر کروٹ پر لحاف نئی نئی صورتیں بنا کر دیوار پر سایہ ڈالتا۔ مگر کوئی بھی سایہ ایسا نہ تھا جو انہیں زندہ رکھنے کے لۓ کافی ہو۔ مگر کیوں جۓ پھر کوئی، زندگی! جان کی زندگی جو تھی، جینا بدا تھا نصیبوں میں، وہ پھر جینے لگیں اور خوب جئیں
ربو نے انہیں نیچے گرتے گرتے سنبھال لیا۔ چپ پٹ دیکھتے دیکھتے ان کا سوکھا جسم ہرا ہونا شروع ہوا۔ گال چمک اٹھے اور حسن پھوٹ نکلا۔ ایک عجیب وغریب تیل کی مالش سے بیگم جان میں زندگی کی جھلک آئی۔ معاف کیجۓ، اس تیل کا نسخہ آپ کو بہترین سے بہترین رسالہ میں بھی نہ ملے گا۔
جب میں نے بیگم جان کو دیکھا تو وہ چالیس بیالیس کی ہوں گی۔ اُفوہ کس شان سے وہ مسند پر نیم دراز تھیں اور ربو ان کی پیٹھ سے لگی کمر دبا رہی تھی۔ ایک اودے رنگ کا دوشالہ ان کے پیروں پر پڑا تھا اور وہ مہارانوں کی طرح شاندار معلوم ہو رہی تھیں۔ مجھے ان کی شکل بے انتہا پسند تھی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ گھنٹوں بالکل پاس سے ان کی صورت دیکھا کروں۔ ان کی رنگت بالکل سفید تھی۔ نام کو سرخی کا ذکر نہیں اور بال سیاہ اور تیل میں ڈوبے رہتے تھے۔ میں نے آج تک ان کی مانگ ہی بگڑی نہ دیکھی۔ مجال ہے جو ایک بال ادھر ادھر ہو جاۓ۔ ان کی آنکھیں کالی تھیں اور ابرو پر کے زائد بال علیحدہ کردینے سے کمانیں سے کچھی رہتی تھیں۔ آنکھیں ذرا تنی ہوئی رہتی تھیں۔ بھاری بھاری پھولے پپوٹے موٹی موٹی آنکھیں۔ سب سے جو ان کے چہرے پر حیرت انگیز جاذبیت نظر چیز تھی، وہ ان کے ہونٹ تھے۔ عموماً وہ سرخی سے رنگے رہتے تھے۔ اوپر کے ہونٹوں پر ہلکی ہلکی مونچھیں سی تھیں اور کنپٹیوں پر لمبے لمبے بال کبھی کبھی ان کا چہرہ دیکھتے دیکھتے عجیب سا لگنے لگتا تھا۔ کم عمر لڑکوں جیسا!….
ان کے جسم کی جلد بھی سفید اور چکنی تھی۔ معلوم ہوتا تھا، کسی نے کس کر ٹانکے لگا دۓ ہوں۔ عموماً وہ اپنی پنڈلیاں کھجانے کے لۓ کھولتیں، تو میں چپکے چپکے ان کی چمک دیکھا کرتی۔ ان کا قد بہت لمبا تھا اور پھر گوشت ہونے کی وجہ سے وہ بہت ہی لمبی چوڑی معلوم ہوتی تھیں لیکن بہت متناسب اور ڈھیلا ہوا جسم تھا۔ بڑے بڑے چکنے اور سفید ہاتھ اور سڈول کمر، تو ربو ان کی پیٹھ کھجایا کرتی تھی۔ یعنی گھنٹوں ان کی پیٹھ کھجاتی۔ پیٹھ کھجوانا بھی زندگی کی ضروریات میں سے تھا بلکہ شاید ضرورت زندگی سے بھی زیادہ۔
ربو کو گھر کا اور کوئی کام نہ تھا بس وہ سارے وقت ان کے چھپر کھٹ پر چڑھی کبھی پیر، کبھی سر اور کبھی جسم کے دوسرے حصے کو دبایا کرتی تھی۔ کبھی تو میرا دل ہول اٹھتا تھا جب دیکھو ربو کچھ نہ کچھ دبا رہی ہے، یا مالش کر رہی ہے۔ کوئی دوسرا ہوتا تو نہ جانے کیا ہوتا۔ میں اپنا کہتی ہوں، کوئی اتنا چھوۓ بھی تو میرا جسم سڑ گل کے ختم ہو جاۓ۔
اور پھر یہ روز روز کی مالش کافی نہیں تھی۔ جس روز بیگم جان نہاتیں۔ یا اللہ بس دو گھنٹہ پہلے سے تیل اور خوشبودار ابٹنوں کی مالش شروع ہو جاتی اور اتنی ہوتی کہ میرا تو تخیل سے ہی دل ٹوٹ جاتا۔ کمرے کے دروازے بند کرکے انگیٹھیاں سلگتیں اور چلتا مالش کا دور اور عموماً صرف ربو ہی رہتی۔ باقی کی نوکرانیاں بڑبڑاتی دروازہ پر سے ہی ضرورت کی چیزیں دیتی جاتیں۔
بات یہ بھی تھی کہ بیگم جان کو کھجلی کا مرض تھا۔ بے چاری کو ایسی کھجلی ہوتی تھی اور ہزاروں تیل اور ابٹن ملے جاتے تھے مگر کھجلی تھی کہ قائم۔ ڈاکٹر حکیم کہتے کچھ بھی نہیں۔ جسم صاف چٹ پڑا ہے۔ ہاں کوئی جلد اندر بیماری ہو تو خیر۔ نہیں بھئی یہ ڈاکٹر تو موۓ ہیں پاگل۔ کوئی آپ کے دشمنوں کو مرض ہے۔ اللہ رکھے خون میں گرمی ہے۔ ربو مسکرا کر کہتی اور مہین مہین نظروں سے بیگم جان کو گھورتی۔ اوہ یہ ربو…. جتنی یہ بیگم جان گوری، اتنی ہی یہ کالی تھی۔ جتنی یہ بیگم جان سفید تھیں، اتنی ہی یہ سرخ۔ بس جیسے تپا ہوا لوہا۔ ہلکے ہلکے چیچک کے داغ۔ گٹھا ہوا ٹھوس جسم۔ پھرتیلے چھوٹے چھوٹے ہاتھ، کسی ہوئی چھوٹی سی توند۔ بڑے بڑے پھولے ہوۓ ہونٹ، جو ہمیشہ نمی میں ڈوبے رہتے اور جسم میں عجیب گھبرانے والی بو کے شرارے نکلتے رہتے تھے اور یہ نتھنے تھے پھولے ہوۓ، ہاتھ کس قدر پھرتیلے تھے، ابھی کمر پر، تو وہ لیجۓ پھسل کر گۓ کولھوں پر، وہاں رپٹے رانوں پر اور پھر دوڑ ٹخنوں کی طرف۔ میں تو جب بھی بیگم جان کے پاس بیٹھتی یہی دیکھتی کہ اب اس کے ہاتھ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔
آج ربو اپنے بیٹے سے ملنے گئی ہوئی تھی۔ وہ بڑا جھگڑالو تھا۔ بہت کچھ بیگم جان نے کیا۔ اسے دکان کرائی،گاؤں میں لگایا مگر وہ کسی طرح مانتا ہی نہ تھا۔ نواب صاحب کے یہاں کچھ دن رہا۔ خوب جوڑے بھاگے بھی بنے۔ نہ جانے کیوں ایسا بھاگا کہ ربو سے ملنے بھی نہ آتا تھا۔ لہٰذا ربو ہی اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں اس سے ملنے گئی تھی۔ بیگم جان نہ جانے دیتی مگر ربو بھی مجبور ہو گئی۔
سارا دان بیگم جان پریشان رہیں۔ اس کا جوڑ جوڑ ٹوٹتا رہا۔ کسی کا چھونا بھی انہیں نہ بھاتا تھا۔ انہوں نے کھانا بھی نہ کھایا اور سارا دن اداس پڑی رہیں۔
”میں کھجا دوں سچ کہتی ہوں“۔ میں نے بڑے شوق سے تاش کے پتے بانٹتے ہوۓ کہا۔ بیگم جان مجھے غور سے دیکھنے لگیں۔
میں تھوڑی دیر کھجاتی رہی اور بیگم جان چپکی لیٹی رہیں۔ دوسرے دن ربو کو آنا تھا مگر وہ آج بھی غائب تھی۔ بیگم جان کا مزاج چڑچڑا ہوتا گیا۔ چاۓ پی پی کر انہوں نے سر میں درد کرلیا۔
میں پھر کھجانے لگی، ان کی پیٹھ…. چکنی میز کی تختی جیسی پیٹھ۔ میں ہولے ہولے کھجاتی رہی۔ ان کا کام کرکے کیسی خوش ہوتی تھی۔
”ذرا زور سے کھجاؤ…. بند کھول دو“ بیگم جان بولیں۔
ادھر…. اے ہے ذرا شانے سے۔ نیچے…. ہاں…. وہاں بھئی واہ…. ہا…. ہا…. وہ سرور میں ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں لے کر اطمینان کا اظہار کرنے لگیں۔
”اور ادھر…. حالانکہ بیگم جان کا ہاتھ خوب جا سکتا تھا مگر وہ مجھ سے ہی کھجوا رہی تھیں اور مجھے الٹا فخر ہو رہا تھا“ یہاں …. اوئی…. تم تو گدگدی کرتی ہو…. واہ….“ وہ ہنسیں۔ میں باتیں بھی کر رہی تھی اور کھجا بھی رہی تھی۔
تمہیں کل بازار بھیجوں گی….کیا لوگی…. وہی سوتی جاگتی گڑیا۔
نہیں بیگم جان…. میں تو گڑیا نہیں لیتی…. کیا بچہ ہوں اب میں….“
بچہ نہیں تو کیا بوڑھی ہو گئی…. وہ ہنسیں…. گڑیا نہیں تو ببوا لینا….کپڑے پہنانا خود۔ میں دوں گی تمہیں بہت سے کپڑے سنا….“ انہوں نے کروٹ لی۔
”اچھا“ میں نے جواب دیا۔
”ادھر“۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر جہاں کجھلی ہو رہی تھی، رکھ دیا۔ جہاں انہیں کھجلی معلوم ہوتی وہاں رکھ دیتی اور میں بے خیالی میں ببوے کے دھیان میں ڈوبی مشین کی طرح کھجاتی رہی اور وہ متواتر باتیں کرتی رہیں۔
”سنو تو….تمہاری فراکیں کم ہو گئی ہیں۔ کل درزی کو دے دوں گی کہ نئی سی لاۓ۔ تمہاری اماں کپڑے دے گئی ہیں۔“
”وہ لال کپڑے کی نہیں بنواؤں گی…. چماروں جیسی ہے۔“ میں بکواس کر رہی تھی اور میرا ہاتھ نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا۔ باتوں باتوں میں مجھے معلوم بھی نہ ہوا۔ بیگم جان تو چت لیٹی تھیں…. ارے…. میں نے جلدی سے ہاتھ کھینچ لیا۔
”اوئی لڑکی….دیکھ کر نہیں کھجاتی…. میری پسلیاں نوچے ڈالتی ہے۔“ بیگم جان شرارت سے مسکرائیں اور میں جھینپ گئی۔
ادھر آکر میرے پاس لیٹ جا….“ انہوں نے مجھے بازوپر سر رکھ کر لٹا لیا۔
اے ہے کتنی سوکھ رہی ہے۔ پسلیاں نکل رہی ہیں۔ انہوں نے پسلیاں گننا شروع کردیں۔
”اوں….“ میں منمنائی۔
”اوئی…. تو کیا میں کھا جاؤں گی….کیسا تنگ سویٹر بُنا ہے!“ گرم بنیان بھی نہیں پہنا تم نے…. میں کلبلانے لگی۔
”کتنی پسلیاں ہوتی ہیں….“ انہوں نے بات بدلی۔
”ایک طرف نو اور ایک طرف دس“ میں نے اسکول میں یاد کی ہوئی ہائی جین کی مدد لی۔ وہ بھی اوٹ پٹانگ۔
”ہٹالو ہاتھ….ہاں ایک….دو….تین….“
میرا دل چاہا کس طرح بھاگوں…. اور انہوں نے زور سے بھینچا۔
”اوں…. “ میں مچل گئی…. بیگم جان زور زور سے ہنسنے لگیں۔ اب بھی جب کبھی میں ان کا اس وقت کا چہرہ یاد کرتی ہوں تو دل گھبرانے لگتا ہے۔ ان کی آنکھوں کے پپوٹے اور وزنی ہوگۓ۔ اوپر کے ہونٹ پر سیاہی گھری ہوئی تھی۔ باوجود سردی کے پسینے کی ننھی ننھی بوندیں ہونٹوں پر اور ناک پر چمک رہی تھیں۔ اس کے ہاتھ یخ ٹھنڈے تھے۔ مگر نرم جیسے ان پر کھال اتر گئی ہو۔ انہوں نے شال اتار دی اور کارگے کے مہین کرتے میں ان کا جسم آٹے کی لونی کی طرح چمک رہا تھا۔ بھاری جڑاؤ سونے کے گرین بٹن گربیان کی ایک طرف جھول رہے تھے۔ شام ہو گئی تھی اور کمرے میں اندھیرا گھٹ رہا تھا۔ مجھے ایک نا معلوم ڈر سے وحشت سی ہونے لگی۔ بیگم جان کی گہری گہری آنکھیں۔ میں رونے لگی دل میں۔ وہ مجھے ایک مٹی کے کھلونے کی طرح بھینچ رہی تھیں۔ ان کے گرم گرم جسم سے میرا دل ہولانے لگا مگر ان پر تو جیسے بھتنا سوار تھا اور میرے دماغ کا یہ حال کہ نہ چیخا جاۓ اور نہ رہ سکوں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پست ہوکر نڈھال لیٹ گئیں۔ ان کا چہرہ پھیکا اور بد رونق ہو گیا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگیں۔ میں سمجھی کہ اب مریں یہ اور وہاں سے اٹھ کر سرپٹ بھاگی باہر۔
شکر ہے کہ ربو رات کو آگئی اور میں ڈری ہوئی جلدی سے لحاف اوڑھ کر سو گئی مگر نیند کہاں۔ چپ گھنٹوں پڑی رہی۔
اماں کسی طرح آہی نہیں چکی تھیں۔ بیگم جان سے مجھے ایسا ڈر لگتا تھا کہ میں سار ا دن ماماؤں کے پاس بیٹھی رہی مگر ان کے کمرے میں قدم رکھتے ہی دم نکلتا تھا اور کہتی کس سے اور کہتی ہی کیا کہ بیگم جان سے ڈر لگتا ہے۔ بیگم جان جو میرے اوپر جان چھڑکتی تھیں۔
آج ربو میں اور بیگم جان میں پھر ان بن ہوگئی…. میری قسمت کی خرابی کہیے یا کچھ اور مجھے ان دونوں کی ان بن سے ڈر لگا۔ کیونکہ رات ہی بیگم جان کو خیال آیا کہ میں باہر سردی میں گھوم رہی ہوں اور مروں گی نمونیے میں۔
”لڑکی کیا میرا سر منڈواۓ گی۔ جو کچھ ہوا ہو گیا، تو اور آفت آۓ گی۔“
انہوں نے نے مجھے پاس بٹھالیا۔ وہ خود منہ ہاتھ سلفچی میں دھو رہی تھیں، چاۓ تپائی پر رکھی تھی۔
”چاۓ تو بناؤ…. ایک پیالی مجھے بھی دینا…. وہ تولیے سے منہ خشک کر کے بولیں ذرا کپڑے بدل لوں۔“
وہ کپڑے بدلتی رہیں اور میں چاۓ پیتی رہی۔ بیگم جان نائن سے پیٹھ ملواتے وقت اگر مجھے کسی کام سے بلواتیں، تو میں گردن موڑے جاتی اور واپس بھاگ آتی۔ اب جو انہوں نے کپڑے بدلے، تو میرا دل الٹنے لگا۔ منہ موڑے میں چاۓ پیتی رہی۔
”ہاۓ اماں…. میرے دل نے بے کسی سے پکارا…. آخر ایسا بھائیوں سے کیا لڑتی ہوں جو تم میری مصیبت…. اماں کو ہمیشہ سے میرا لڑکوں کے ساتھ کھلینا ناپسند ہے۔ کہو بھلا لڑکے کیا شیر چیتے ہیں جو نگل جائیں گے ان کی لاڈلی کو؛ اور لڑکے بھی کون؟ خود بھائی اور دو چار سڑے سڑاۓ۔ ان ذرا ذرا سے ان کے دوست مگر نہیں، وہ تو عورت ذات کو سات سالوں میں رکھنے کی قائل اور یہاں بیگم جان کی وہ دہشت کہ دنیا بھر کے غنڈوں سے نہیں۔ بس چلتا، سو اس وقت سڑک پر بھاگ جاتی، پھر وہاں نہ ٹکتی مگر لاچار تھی۔ مجبور کلیجہ پر پتھر رکھے بیٹھی رہی۔“
کپڑے بدل کر سولہ سنگھار ہوۓ اور گرم گرم خوشبوؤں کے عطر نے اور بھی انہیں انگارا بنا دیا اور وہ چلیں مجھ پر لاڈ اتارنے۔
”گھر جاؤں گی….“ میں نے ان کی ہر راۓ کے جواب میں کہا اور رونے لگی۔ ”میرے پاس تو آؤ…. میں تمہیں بازار لے چلوں گی…. سنو تو….“۔
مگر میں کلی کی طرح پھسل گئی۔ سارے کھلونے، مٹھائیاں ایک طرف اور گھر جانے کی رٹ ایک طرف۔
”وہاں بھیا ماریں گے …. چڑیل….“ انہوں نے پیار سے مجھے تھپڑ لگایا۔
”پڑیں ماریں بھیا…. میں نے سوچا اور روٹھی اکڑتی رہی۔ ”کچی امیاں کھٹی ہوتی ہیں بیگم جان….“ جلی کٹی ربو نے راۓ دی اور پھر اس کے بعد بیگم جان کو دورہ پڑ گیا۔ سونے کا ہار جو وہ تھوڑی دیر پہلے مجھے پہنا رہی تھیں، ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ مہین جالی کا دوپٹہ تار تار اور وہ مانگ جو میں نے کبھی بگڑی نہ دیکھی تھی، جھاڑ جھنکاڑ ہو گئی۔
”اوہ …. اوہ اوہ اوہ….“ وہ جھٹکی لے لے کر چلانے لگیں۔ میں رپٹی باہر۔
بڑے جتنوں سے بیگم جان کو ہوش آیا۔ جب میں سونے کے لۓ کمرے میں دبے پیر جا کر جھانکی، تو ربو ان کی کمر سے لگی جسم دبا رہی تھی۔
”جوتی اتار دو…. اس نے اس کی پسلیاں کھجاتے ہوۓ کہا اور میں چوہیا کی طرح لحاف میں دبک گئی۔“
سر سر پھٹ کج…. بیگم جان کا لحاف اندھیرے میں پھر ہاتھی کی طرح جھوم رہا تھا۔
”اللہ آں….“ میں نے مری ہوئی آواز نکالی۔ لحاف میں ہاتھی چھلکا اور بیٹھ گیا۔ میں بھی چپ ہوگئی۔ ہاتھی نے پھر لوٹ مچائی۔ میرا رواں رواں کانپا۔ آج میں نے دل میں ٹھان لیا کہ ضرور ہمت کرکے سرہانے لگا ہوا بلب جلا دوں۔ ہاتھ پھڑپھڑا رہا تھا اور جیسے اکڑوں بیٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ چپڑ چپڑ کچھ کھانے کی آواز آرہی تھیں۔ جیسے کوئی مزے دار چٹنی چکھ رہا ہو۔ اب میں سمجھی! یہ بیگم جان نے آج کچھ نہیں کھایا اور ربو مردی تو ہے سدا کی چٹو۔ ضرور یہ تر مال اڑا رہی ہے۔ میں نے نتھنے پھلا کر سوں سوں ہوا کو سونگھا۔ سواۓ عطر صندل اور حنا کی گرم گرم خوشبو کے اور کچھ محسوس نہ ہوا۔
لحاف پھر امنڈنا شروع ہو ا۔ میں نے بہیترا چاہا کہ چپکی پڑی رہوں۔ مگر اس لحاف نے تو ایسی عجیب عجیب شکلیں بنانی شروع کیں کہ میں ڈر گئی۔ معلوم ہوتا تھا غوں غوں کرکے کوئی بڑا سا مینڈک پھول رہا ہے اور اب اچھل کر میرے اوپر آیا۔
آ….ن….اماں…. میں ہمت کرکے گنگنائی۔ مگر وہاں کچھ شنوائی نہ ہوئی اور لحاف میرے دماغ میں گھس کر پھولنا شروع ہوا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پلنگ کے دوسری طرف پیر اتارے اور ٹٹول ٹٹول کر بجلی کا بٹن دبایا۔ ہاتھی نے لحاف کے نیچے ایک قلابازی لگائی اور پچک گیا۔ قلابازی لگانے میں لحاف کا کونہ فٹ بھر اٹھا۔
اللہ! میں غڑاپ سے اپنے بچھونے میں آئی۔
_____:::
غزل
اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب
چاقو واقو، چھریاں وُ ریاں، خنجر ونجر سب
جس دن سے تم روٹھے مجھ سے، روٹھے روٹھے ہیں
چادر وادر، تکیہ وکیہ، بستر وِستر سب
مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ہے
پھیکے پڑ گئے کپڑے وپڑے، زیور ویور سب
آخر میں کس دن ڈوبوں گا، فکریں کرتے ہیں
دریا وریا، کشتی وشتی، لنگر ونگر سب
راحت اندوری
____:::/
<3
آپ کو دیکھ کر دیکهتا ره گیا
کیا کہوں اور کہنے کو کیا ره گیا
آتے آتے۔۔۔۔ مرا نام سا ره گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا ره گیا
وه مرے سامنے ہی گیا اور میں
راستے کی طرح دیکهتا ره گیا
جهوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تها کہ سچ بولتا ره گیا
آندهیوں کے ارادے تو اچھے نہ تهے
یہ دِیا کیسے جلتا ہوا ره گیا
ان کی آنکهوں سے کیسے چهلکنے لگا
میرے ہونٹوں پہ جو ماجرا ره گیا
ایسے بچهڑے سبهی رات کے موڑ پر
آخری ہمسفر راستہ ره گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔