ایران کے ایٹمی تحقیقی مراکز پر حملوں کی خبر نے دنیا بھر میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ ایران کا جوہری پروگرام ہی ہے جس کے سبب ملک کو عالمی سطح پر سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور اب اس پروگرام پر اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے ہونے والے حملوں کے بعد صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اس بحران میں اسرائیل اور ایران کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری، عالمی طاقتوں کی مداخلت، اور خطے کی سکیورٹی کی صورت حال پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اسرائیل کے حملے: ایران کو کس حد تک نقصان پہنچا؟
اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ تہران کے قریب پارچین میں واقع خفیہ جوہری تحقیقی مرکز پر حملہ کیا گیا ہے، جس میں نہ صرف ایران کے جوہری پروگرام کی اہم ترین سہولتیں تباہ ہو گئیں بلکہ اس کے لیے درکار پیچیدہ آلات بھی تباہ ہو گئے ہیں جو نیوکلیئر چین ری ایکشن شروع کرنے کے لیے ضروری تھے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق یہ حملہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو دوبارہ متحرک کر دیا ہے، اور اگر ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے ان تباہ شدہ آلات کو دوبارہ حاصل کرنا ہوگا۔
اسرائیل اور امریکہ کا مؤقف: ایران کے جوہری پروگرام پر تشویش
اسرائیلی اور امریکی حکام کے مطابق، ایران نے گزشتہ ایک سال کے دوران اپنے جوہری ہتھیاروں کی تحقیق دوبارہ شروع کی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران عالمی برادری کے ساتھ اپنی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل نے ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو روکنا اور انہیں وسعت دینے سے روکنا تھا۔
اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کے حملے نے ایران کے جوہری پروگرام کو مفلوج کر دیا ہے، کیونکہ ایران کے پاس ان تباہ شدہ آلات کو تبدیل کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ اس حملے کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا اور عالمی برادری کو یہ پیغام دینا تھا کہ اسرائیل اپنے خطے کی سلامتی کے بارے میں کسی بھی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ایران کا ردعمل: خاموشی یا جوابی کارروائی؟
اس حملے کے بعد ایران کا ردعمل بھی عالمی سیاست میں اہمیت رکھتا ہے۔ ایران نے اس حملے پر خاموشی اختیار کی ہے، لیکن یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا ایران ہمیشہ کے لیے خاموش رہنے والا ہے یا وہ کسی مناسب موقع پر جوابی کارروائی کرے گا؟ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے فوج کو اسرائیل پر حملہ کرنے کی تیاریوں کی ہدایت دی تھی، لیکن اب تک کوئی بھی واضح جوابی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ ایران کی خاموشی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یا تو وہ جوابی کارروائی کے لیے وقت کا انتخاب کر رہا ہے یا پھر وہ عالمی طاقتوں کی طرف سے مزید دباؤ کا شکار ہے۔
ٹرمپ کی واپسی: ایران کا نیا موقف
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی ایران کے لیے ایک سنگین چیلنج بن سکتی ہے۔ ایران کے لیے جوہری بم بنانے کا عمل اس کی عالمی طاقت کے حصول کی ایک اہم کوشش ہے، اور یہ اس کے لیے ایک راستہ ہے جس کے ذریعے وہ مغربی ایشیا میں اپنی بالادستی کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات کے پیش نظر ایران نے اپنی پوزیشن میں تبدیلی کی ہے۔ ٹرمپ کے دور میں ایران کے جوہری معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کی گئیں تھیں، جس سے ایران کو مزید مشکلات کا سامنا تھا۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے سربراہ رافیل گروسی نے حال ہی میں ایران کے دو بڑے جوہری مراکز کا دورہ کیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں پر عالمی سطح پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم، ایران کے لیے اپنے جوہری بم کے عزائم کو ترک کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ یہ اس کے لیے ایک بڑی اسٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی: خطے پر اثرات
اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی مزید بڑھتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کھلی جنگ ہوتی ہے تو اس کے ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ اس وقت، دونوں ممالک کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں، اور اگر یہ تنازعہ ایٹمی سطح تک پہنچتا ہے تو اس کے اثرات نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر پر مرتب ہوں گے۔
اسرائیل نے ہمیشہ ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا ہے اور اس نے بارہا ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے فوجی کارروائی کی دھمکیاں دی ہیں۔ اگر ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف اسرائیل بلکہ پورے خطے کی سکیورٹی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
کیا ایران اپنے جوہری پروگرام کو ترک کرے گا؟
اس وقت ایران کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو عالمی برادری کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے بدلے ترک کرے گا یا نہیں۔ ایران نے ابھی تک اپنی جوہری سرگرمیوں پر واضح موقف اختیار نہیں کیا ہے، اور یہ سوال بھی اہمیت رکھتا ہے کہ ایران، اسرائیل کے حملے کا بدلہ کیسے لے گا۔ عالمی طاقتوں کا دباؤ اور اسرائیل کی جانب سے کیے گئے حملے کے بعد ایران کو اس بات پر فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ اپنے جوہری پروگرام پر سمجھوتہ کرتا ہے یا ایٹمی جنگ کی طرف بڑھتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے ایٹمی تحقیقی مرکز پر اسرائیل کے حملے نے عالمی سیاست میں ایک نیا موڑ پیدا کیا ہے اور اس بحران کے عالمی سطح پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایران کی جوہری سرگرمیاں، اسرائیل کے حملے، اور عالمی طاقتوں کی مداخلت خطے کی سکیورٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ اس صورت حال میں ایران کو اپنے جوہری عزائم کو ترک کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا، لیکن اس کی جوہری طاقت کے حوالے سے فیصلے عالمی سطح پر عالمی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔