Thursday, 16 November 2023

یوگی جی ! کا بونا ، رونا اور ہنسنا

یوگی جی ! کا بونا ، رونا اور ہنسنا !

شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

بونا ، رونا اور ہنسنا !
اتر پردیش ( یو پی ) کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اِن تین کاموں کے ’ ایکسپرٹ ‘ ہیں ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کوئی اور سیاست داں یہ سارے کام یوگی سے بہتر نہیں کر سکتا تو زیادہ درست ہوگا ۔ رکیے ، کہیں ’ بونا ‘ سے آپ کھیتوں کی بوائی تو نہیں سمجھ رہے ہیں ! بوائی تو ایک تعمیری کام ہوتا ہے ، اور یوگی جی ! کہاں تعمیری کام کرنا پسند کرتے ہیں ، انہیں تو بس تخریب پسند ہے ، لہذا یہ ’ بونا ‘ بھی تخریب کے معنیٰ میں ہے ۔ زہر بونا ، نفرت بونا ، ایک دوسرے کے درمیان تفرقہ اور دوری کے بول بونا ، بس ایسے کام کرنے کے لیے اُن سے کہیں وہ مَن لگا کر کریں گے ۔ ویسے اُن سے کہنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو ازخود یہ سب کرتے ہیں ، اس کی ڈھیروں مثالیں ہیں ، لیکن ہم پیش ایک تازہ مثال کریں گے ۔ سب ہی جانتے ہیں کہ اِن دنوں غزہ پر اسرائیل اندھادھند بمباری کر رہا ہے ، اور بمباری میں فلسطینی بچے ، عورتیں اور مرد سیکڑوں کی تعداد میں جان سے جا رہے ہیں ، یہ فلسطینیوں کا جان سے جانا یوگی جی ! کو خوب بھا رہا ہے ، وہ مارے خوشی کے ہنس رہے ، بلکہ قہقہے لگا رہے ہیں ، یعنی ’ بونا ‘ کے بعد اپنی ایک اور پسند ’ ہنسنا ‘ پر عمل کر رہے ہیں ۔ یوگی راجستھان اسمبلی کے لیے بی جے پی کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے الور گیے تھے ، وہاں انہوں نے غزہ پر بمباری کے لیے اسرائیل کی شان میں قصیدے پڑھے ، ویسے ان کے قصیدے پڑھنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے ، وہ اسرائیل کے ہی قصیدے پڑھیں گے فلسطین کے نہیں ۔ وہاں انہوں نے ایک کام اور کیا ، اُن بچوں اور عورتوں و مردوں کو ، جن کا کوئی تعلق نہ حماس سے ہے اور نہ طالبان سے ، نشانہ بنایا ، انہیں ’ طالبانی ذہنیت ‘ کا قرار دیا اور قہقہے لگاتے ہوئے کہا ، ’’ دیکھ رہے ہیں نا اس سمئے ( وقت ) غزہ میں اسرائیل طالبانی مانسِکتا ( ذہنیت ) کو کیسے کچل رہا ہے ، سٹیک ( درست ) ایک دَم نشانہ مار مار کے ۔‘‘ انہوں نے اس مانسِکتا کے لیے ایک علاج بھی تجویز کر دیا ہے ’ ہنومان جی کا گدا ‘ ! گویا یہ کہ اپنے وطن کے لیے آواز اٹھانا ’ طالبانی مانسِکتا ‘ کا کام ہے ، اور جو یہ کرے اس کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے ۔ گدا سے مراد طاقت ہی ہے ۔ اگر واقعی طالبانی اتنے خراب ذہنیت کے ہیں تو کرکٹ ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے ہندوستان آئی افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو کھدیڑ کیوں نہیں دیا جس نے لکھنئو کے میدان میں بھی مقابلے میں حصہ لیا تھا ، اسی لکھنئو میں جو یو پی کی راج دھانی ہے ! دراصل یوگی ’ اسلامو فوبیا ‘ مرض کے اُس اسٹیج پر ہیں جہاں ہر دوا غیر موثر ثابت ہوتی ہے ۔ جب ۷ ، اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کا یہ تنازعہ شروع ہوا تھا تو وزیراعظم نریندر مودی کے ’ وی اسٹینڈ وتھ اسرائیل ‘ کے نعرے کے ساتھ یوگی حرکت میں آ گیے تھے ، اور یہ سخت حکم جاری کر دیا تھا کہ کوئی فلسطین کی حمایت میں آواز نہ اٹھائے ورنہ سخت کارروائی کی جائے گی ۔ ان کے ہی راج میں ایک مسلم پولیس والے کو فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھانے کے لیے نوکری سے نکالا بھی گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب یوگی اس لیے کر رہے ہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں دوری بڑھے اور وہ یہ ثابت کر سکیں کہ ان سے بڑا ’ اسلامو فوبک ‘ کوئی اور نہیں ہے ۔ یوگی جی ! مسلمانوں کو کس قدر پسند یا نا پسند کرتے ہیں اس کا اندازہ ان کے ماضی کے بیانات سے خوب ہو جاتا ہے ، جیسے کہ ’’ اگر کوئی مرنے کیلئے آہی رہا ہے تو وہ زندہ کیسے ہوجائے گا ۔‘‘ یہ جملہ ان سب کے لیے تھا جو سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے تھے ۔ اس جملے کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ یہ سب اسی قابل ہیں کہ ماردیئے جائیں ۔ لہٰذا یہی کیا گیا ۔ یوپی کے احتجاجی مظاہروں میں جو لوگ مارے گئے ہیں انہیں بقول یوگی مرنا ہی تھا کیونکہ وہ تو مرنے کیلئے ہی آرہے تھے تو وہ زندہ کیسے ہوں گے ! لوگ خوب جانتے ہیں کہ یوپی کے سی اے اے مخالف احتجاجی مظاہروں میں 24 سے زائد مسلمانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی ہوئے تھے ۔ اُن کا ایک بیان قبرستان اور شمشان کے تعلق سے تھا ، ایک بیان قبروں کو کھود کر مسلم خواتین کی لاشوں کی بے حرمتی کے تعلق سے تھا ۔
 ابھی کچھ پہلے راجستھان کی انتخابی مہم میں وہ نفرت کا ’ بونا ‘ اکبراعظم اور شیواجی مہاراج کے ناموں کے سہارے کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ کانگریس اکبرِ اعظم کو عظیم کہتی ہے اور بی جے پی شیواجی مہاراج کو عظیم کہتی ہے ‘! کیا کسی کو عظیم کہنا یا نہ کہنا کوئی جرم ہے ؟ شاید یوگی کی نظر میں جرم ہی ہے ۔ ویسے ناموں کے معاملہ میں یوگی جی ! کی حکمتِ عملی کا جواب نہیں ! انہیں نام بدلنا خوب آتا ہے ؛ علی گڑھ کا نام بدل کر ہری گڑھ کر دیا ہے ! انہیں خوب تسلّی ملی ہو گی کہ وہ مسلمانوں کی ایک اور نشانی ختم کرنے میں وہ کامیاب ہوئے ہیں ۔ یوگی مسلمانوں سے ، ان کے آثار سے اور ان کے ناموں سے نفرت کے اظہار میں کبھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے ہیں ۔ ناموں کی تبدیلی کے اس عمل کو ، مودی اور بی جے پی کی مرکزی اور یوگی کی ریاستی سرکاروں کے ذریعے محض’ تاریخ کا بھگوا کرن ‘ کہنا درست نہیں ہے ۔ نہ ہی اسے ’ تعلیمی پروپگنڈہ ‘ کہنا مکمل سچ ہے ۔ یہ عمل ’ صفائے‘ کا عمل ہے ، ’تطہیر‘ کا عمل ہے ۔ اسے ایک مذہب اور ایک فرقے کی ’ نسل کشی ‘ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی یہ سمجھتی ہے ، اور شاید درست سمجھتی ہے کہ جس کی تاریخ کا صفایا کردیا جائے گا ، اس کی نسل باقی نہیں رہ سکے گی ، مٹ جائے گی ۔ جب سے یوگی آدتیہ ناتھ وزیراعلیٰ بنے ہیں - اب تو یہ ان کا دوسرا ٹرم ہے - انہوں نے اُن تمام شہروں کے ناموں کو ، جو مسلم شناخت کو ظاہر کرتے تھے ، تبدیل کرنا ، یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ حرفِ غلط کی طرح مٹانا شروع کردیا ہے ۔ فیض آباد ضلع کا نام ایودھیا کردیا گیا ہے ، الہ آباد کا نام پریاگ راج رکھ دیا گیا ہے ، مغل سرائے ریلوے اسٹیشن کو دین دیال اپادھیائے جنکشن کردیاگیا ہے ۔ اور علی گڑھ کا نام ہری گڑھ ہو گیا ہے ۔ شاید اس لیے کہ جس طرح اکبرالہ آبادی کو اکبر پریاگ راجی کردیا گیا اسی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ہری گڑھ مسلم یونیورسٹی کردیا جائے ۔ لیکن ایسا ہو نہیں پائے ۔
 یوگی جی کا ’ رونا ‘ رہ گیا ، اس لیے کچھ بات اس کی ہو جائے ۔ لوگوں نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر یوگی جی ! کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں ان کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی نظر آ رہی تھیں ، تصویر کنگنا رناؤت کی فلاپ فلم ’ تیجس ‘ کی خصوصی اسکریننگ کی تھی ۔ یوگی جی ! جذبات سے مغلوب ہو کر رو رہے تھے یا ایک خراب ، بکواس فلم دیکھ کر ، یہ تو نہیں پتہ ، لیکن اُن کا رونا بہرحال ایک خبر تو تھی ۔ یاد ہے کہ وہ ایک بار لوک سبھا میں بھی روئے تھے ، اور لوگ آج تک سوشل میڈیا پر اس رونے کو دیکھتے ہیں ۔ اُن کا وہ رونا بڑا پاپولر ہوا ہے ! پارلیمنٹ کے اندر یوگی آدتیہ ناتھ کے سسک سسک کر رونے کا واقعہ یو پی میں سماج وادی پارٹی کی حکومت میں ہوا تھا ۔ ملائم سنگھ یادو وزیراعلیٰ تھے اور انہوں نے یوگی کی مبینہ زیادتیوں پر لگام لگا دی تھی ، پولیس یوگی کے پیچھے پڑی تھی ، یوگی مارے ڈر اور خوف کے لوک سبھا میں رو پڑے تھے ۔ لیکن آج وہ اپنے پُرانے دنوں کو بھول کر دوسروں کو رُلا رہے ہیں ، انکاؤنٹر کروا رہے ہیں اور خود کو سارے یو پی کا شہنشاہ سمجھ رہے ہیں ! یوگی جی ! کو یاد رکھنا چاہیے کہ زمانہ الٹتا اور پلٹتا رہتا ہے ۔
__________
انور قمر کے انتقال پر ایک سوال !
اتواریہ
؛ شکیل رشید
اردو کے ایک بہترین افسانہ نگار انور قمر ہمارے بیچ اب نہیں رہے ، جمعرات ۹ ، نومبر کی صبح وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے اور اسی دن بعد نمازِ ظہر باندرہ کے قبرستان میں ان کی تدفین ہوگئی ۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ جس افسانہ نگار نے اپنی تقریباً ساری زندگی اردو زبان کو دے دی اس کی تدفین میں اردو والے ( مُراد اردو زبان کے شعراء ، ادبا اور صحافی حضرات ہیں ) شریک نہیں ہو سکے ! اِسی سال ہمارے ایک افسانہ نگار عبدالعزیز خان کا انتقال ہوا تھا ، ان کی تدفین میں اردو زبان کے تین صحافی اور ایک نوجوان افسانہ نگار شامل تھے ، بس ! لیکن اگر کسی اردو والے سے پوچھا جائے کہ ایسا کیوں ہوا ہے ، تو شاید وہ یہی کہے گا کہ قصور اردو والوں کا نہیں ہے ، وہ جواز دے گا کہ عبدالعزیز خان نے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا ، وہ کہے گا کہ انور قمر مرحوم برسوں سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے ، ان کے ٹھکانے کا اکثر لوگوں کو پتہ نہیں تھا ، پھر وہ کہے گا کہ جب کوئی خبر ہی نہ ملے گی تو کیسے تدفین میں جاتے ! یہ خبر کا نہ ہونا اور ایک دوسرے سے کٹ جانا ، آج کی تیز رفتار زندگی کا ایک ایسا بہانہ ہے جو بڑی سے بڑی خطا کو معاف کرنے کا سبب بن جاتا ہے ۔ ہم اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے کہ ہم نے خود رابطے کی کوشش کی یا نہیں کی ۔ مرحوم انور قمر عمر کے ٨٣ ویں سال میں تھے ، اور عبدالعزیز خان کا جب انتقال ہوا تو وہ ٨٤ سال کے ہو چکے تھے ، یہ عمریں بہتوں کے لیے تکلیف دہ بن جاتی ہیں اور اکثر لوگ تنہائی پسند بن جاتے ہیں ، لہذا یہ اُن کا جو عمر میں کم ہیں ایک فرض بن جاتا ہے کہ وہ اپنے بزرگ ساتھیوں کی خبر لیں ، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہم سکون کی سانس لیتے ہیں کہ جان چھوٹی ! کچھ پہلے تک یہ نہیں تھا ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جب افسانہ نگار انور خان صاحبِ فراش تھے تب ان کی عیادت کے لیے ادیبوں کا اناجانا لگا رہتا تھا ، اور جو کسی سبب جا نہیں پاتے تھے وہ خیر خیریت پوچھتے تھے ۔ مرحومین انور خان ، مقدر حمید ، علی امام نقوی ، ساجد رشید ، افتخار امام صدیقی ، مظہر سلیم ، م ناگ اور مشتاق مومن خوش قسمت رہے کہ ان کی تدفین میں اردو زبان وہ ادب سے تعلق رکھنے والوں کی ، بہت بھاری نہ سہی ، لیکن خاصی تعداد موجود تھی ۔ اب زمانہ بدل گیا ہے ، اب لوگ بھول کر بھی کسی کی خیر خیریت نہیں پوچھتے ہیں ۔ کبھی کبھی زندگی ایسے تجربات سے دوچار کرتی ہے کہ یقین نہیں آتا ! مرحوم انور قمر کو جب میں نے جانا تب وہ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی ساکھ بنا چکے تھے اور کسی محفل میں اُنہیں افسانہ پڑھتے ہوئے سُننا ایک خوشگوار تجربہ ہوتا تھا ۔ خوش پوش ، وجیہ اور دراز قد انور قمر کم بولتے تھے ، لیکن کم گو نہیں تھے ، انہیں بولنا بھی خوب آتا تھا ۔ وہ دوستوں کے دوست تھے ، کھلانے پلانے کے شوقین ۔ پڑھنے کا بھی خوب شوق تھا ۔ عالمی ادب پر گہری نگاہ تھی ۔ لیکن ایک دور وہ بھی آیا کہ انہوں نے اپنی جمع کی ہوئی تمام کتابیں ایک کباڑی کو تول دیں ، اور لوگوں سے مُنھ موڑ لیا ۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہوا تھا ! کچھ کہتے ہیں کہ کچھ خانگی اور کاروباری الجھنوں سے ایسا ہوا ، واللہ اعلم ! لیکن کیسا المیہ ہے کہ ان کا کوئی ایسا دوست نہیں تھا جو انہیں الجھنوں سے باہر نکالنے کی کوشش کرتا ۔ وہ دنیا سے کٹ گیے اور ہم سب نے انہیں کٹ جانے دیا ، شاید کسی نے اُنہیں جوڑنے کی کوشش نہیں کی ۔ کیا اب ہم اُنہیں ان کی موت کے بعد یاد ، اور وہ جس پائے کے افسانہ نگار تھے اس کا اعتراف کریں گے ؟ یہ سوال اس لیے ہے کہ عبدالعزیز خان کے انتقال کو سال بیت رہا ہے ، کہیں کسی طرف سے ان کے لیے کوئی تعزیتی نشست نہیں کی گئی ہے ۔ ایسا کئی مرحومین کے ساتھ ہو چکا ہے ، تو کیا ایسا ہی ہوتا رہے گا ؟
________

صرف دو قافیوں کا استعمال
"دیکھا اور ریکھا"

ایک ہی بار اس کو دیکھا ہے 
وہ تو دستِ فلک کی ریکھا ہے

ایک پل کو زمیں پہ اتری تھی
جس کی قسمت تھی اس نے دیکھا ہے

جیسے بجلی سی کوئی چمکی ہے 
جیسے روشن سمے کی ریکھا ہے

زندگانی کے اس خرابے میں
جیسے اک خواب میں ے دیکھا ہے

یہ جو دریا رواں دواں ہے یہاں
میری دھرتی کی ایک ریکھا ہے

لذتِ وصل سے کہیں دلکش
ہجرکی ساعتوں کی ریکھا ہے

بیچ اجالے کے اور اندھیرے کے 
شام جیسے ملن کی ریکھا ہے

اس قدر جو سمٹ کے بیٹھی ہے 
اس کو میں نے بکھرتے دیکھا ہے

منزلیں اس کے پائوں کے نیچے
اس کے ہاتھوں میں ایسی ریکھا ہے

یہ جو شیشے میں بال آیا ہے 
یہ جدائی کی ایک ریکھا ہے

حیرتِ رفتگاں اٹھائے ہوئے
اپنا حال آئنے میں دیکھا ہے

برق اک مانگ ہے گھٹائوں میں
زلف کی برہمی کی ریکھا ہے

اب کے جھری جو آئی چہرے پر 
وقتِ آخیر کی یہ ریکھا ہے

جاوید احمد
*ہم اہل ِ قلم.. ابھی زندہ ہیں ابھی تختے الٹنے باقی ہیں*
🔖 *شگفتہ سبحانی*  

*او اہل قلم.. اۓ ماہ سُخن*
*او رشک قمر.. اۓ رشک ِ سُخن*
لکھئے کہ ابھی بھی سینے میں اس دل کی یہ دھَک دھَک باقی ہے 
لکھئے کہ ابھی بھی پہلو میں زنجیر کی جَھن جھَن ملتی ہے

لکھئے کہ ابھی بھی کَرب سے بوجھل روح کے گہرے زخموں میں
ادراک ِ اَلم، احساس ِ اَلم، اظہار کی خوشبو ملتی ہے 
لکھئے کہ ابھی بھی غیروں سے *اپنوں کے ستم کچھ زیادہ ہیں* 
لکھئے کہ پرائی دھرتی پر ہم وطنوں کے سَر ملتے ہیں

اٹھیے کہ بگولے اٹھتے ہیں، ابھی ظلم کی آندھی چلتی ہے 
لکھئے کہ ابھی بھی غرباء کی
آہوں سے یہ دھرتی ہلتی ہے 

لہراتا ہے خونی پرچم اب
خونریز اندھیرے ملتے ہیں
ابھی سَحر کا جب تک نام نا ہو
اس لمحہ تلک آرام نا ہو 

ابھی دور کہیں چیخوں سے دہلتا ہے ملبوں کا شہر کوئی 
ابھی سناّٹوں میں پاس کہیں دھیرے سے کوئی بَم گرتا ہے 

اۓ اہل قلم... ابھی سونا مت ابھی دل کو کہیں آرام نہیں
اۓ اہل قلم تری جراءت کی
 دنیا کو یہاں پر آس کئی

اٹھو اۓ قلم کارو کہ یہاں پہ گرد کی صورت چھا جاؤ
ہر سمت سے سے اک آواز بنو
آواز کی صورت چھا جاؤ

سینچو یہاں اپنے خوں سے قلم،
صفحہ سے مٹادو ظالم کو
اک امن کی آندھی کی صورت
ہر ظلم کا اب انجام لکھو


*جواب* :
ہم پلٹیں گے اس دور ستم کو لکھیں گے پھر چین و سکوں
*ہم اہل قلم ابھی زندہ ہیں*
*ابھی تختے الٹنے باقی ہیں*
پھولوں کا مہکنا باقی ہے
چڑیوں کا چہکنا باقی ہے

اۓ فرعونو، نمرود سنو! 
ہم سَحر کو کھینچ کے لائیں گے
ہم اہل قلم.. نقّاد ادب
ابھی تاج پہن کر آئیں گے
▪️▫️▪️▫️

*🔴سیف نیوز بلاگر*

کراچی میں 6 منزلہ رہائشی عمارت گرگئی ، 9 افراد جاں بحق ، متعدد زخمی کراچی: لیاری بغدادی میں 6 منزلہ رہائشی عمارت گرگ...