مغلیہ سلطنت کا دوسرا حکمران جس نے 30 دسمبر 1526ء سے 17 مئی 1540ء تک اور بعد ازاں 22 فروری 1555ء سے 27 جنوری 1556ء تک حکومت کی۔ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدی
1530ء تا 1540ء اور پھر 1555ء تا 1556ء مغلیہ سلطنت کا حکمران۔ بانئ سلطنت ظہیر الدین بابر کا بیٹا تھا۔ اس کے تین اور بھائی کامران، عسکری اور ہندالی تھے۔ 17 مارچ، 1508ء میں کابل میں پیدا ہوا۔ اس کی والدہ کا نام ماہم بیگم تھا۔ ہمایوں نے ترک، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ اسے حساب، فلسفہ، علم نجوم اور علم فلکیات سے خصوصی دلچسپی تھی۔ سپہ گری اور نظم و نسق کی اعلیٰ تربیت حاصل کی اور صرف 20 سال کی عمر میں بدخشاں کا گورنر مقرر ہوا۔ اس نے پانی پت اور کنواہہ کی لڑائیوں میں شمولیت اختیار کی۔ اس کی خدمات کے صلے میں اسے حصار فیروزہ کا علاقہ دے دیا گیا۔ 1527ء کے بعد اسے دوبارہ بدخشاں بھیج دیا گیا۔ 1529ء جب وہ آگرہ واپس لوٹا تو اسے سنبھل کی جاگیر کے انتظامات سونپے گئے۔
بابر کی وفات کے بعد نصیر الدین ہمایوں 29 دسمبر 1530ء کو تخت نشین ہوا۔ بابر کی آخری علالت کے دوران وزیر اعظم نظام الدین خلیفہ نے سازش کی کہ مہدی خواجہ، جو ہمایوں کا بہنوئی اور تجربہ کار سپہ سالار تھا، کو تخت پر بٹھادیا جائے لیکن یہ سازش ناکام رہی اور بابر نے پہلے ہی امرا کو وصیت کی کہ وہ ہمایوں کو تخت نشین کریں اور اس سے وفاداری نبھائیں۔ اس طرح بابر کی وفات پر ہمایوں تخت نشین ہوا۔
ورثے میں ملا ہوا تخت ہمایوں کے لیے پھولوں کی سیج ثابت نہ ہوا۔ بابر کو اتنی فرصت ہی نہ ملی کہ وہ اپنی پوزیشن اور حکومت کو مجتمع و مستحکم کرتا اور یہی غیر مستحکم حکومت ہمایوں کی مشکلات کا باعث بنی۔
بہت سے مورخین کی رائے میں ہمایوں نے خود متعدد فاش غلطیوں کا ارتکاب کیا اور اپنے کردار کی خامیوں کے باعث اسے مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور اپنی سلطنت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔
بابر نے بستر مرگ پر ہمایوں کو یہ وصیت کی تھی کہ وہ اپنے بھائیوں سے فیاضانہ سلوک کرے اور ہمایوں نے تخت نشین ہوتے ہی کچھ زیادہ فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ اس نے اپنی سلطنت بھائیوں میں تقسیم کردی۔ اس نے کامران مرزا کو کابل اور قندھار، ہندال کو میوات اور عسکری کو سنبھل کا علاقہ بطور جاگیر دے دیے۔ اپنے چچیرے بھائی سلیمان مرزا کو بدخشاں کا علاقہ عطا کیا۔ ہمایوں کے اس فیاضانہ سلوک کے باوجود اس کے بھائی مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے ہمایوں کا ساتھ دینے کی بجائے اس کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ کامران نے بعد میں پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ ہمایوں نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ بلکہ حصار فیروزہ کا علاقہ بھی اس کے حوالے کر دیا۔ یہ ہمایوں کی سیاسی غلطی تھی کہ اس نے اپنے اہم علاقے فوجی قوت کے حامل تھے۔ حصار فیروزہ کا پایۂ تخت اور کابل و قندھار کے درمیان ایک اہم فوجی چوکی تھا اور اس علاقے کے ہاتھ سے نکل جانے سے اس کی فوجی طاقت کمزور پڑ گئی۔ ان علاقوں کی آمدنی ہاتھ سے چلی جانے سے مالی نقصان بھی ہوا۔
ہندوستان کی حکومت دوبارہ حاصل کرنے کے بعد ہمایوں طویل عرصہ زندہ نہ رہاوہ ایک شام کو اپنے کتب خانہ کی سیڑھیاں اتر رہاتھا کہ اذان مغرب کی آواز سنی وہ سیڑھیوں پر ہی رک گیا مگر بدقسمتی سے اس کی لاٹھی پھسل گئی اور وہ سیڑھیوں سے گر کر شدید زخمی ہو گیا اور انہیں زخموں سے اس کا انتقال ہو گیا۔ مشہور یورپی مؤرخ لین پول کے مطابق “اس نے تما م عمر ٹھوکریں کھائیں اور بالآخر ٹھوکر کھاکر مرا“