حافظ عزیز الرحمان بجرنگ واڑی مالیگاؤں
9370465545
حال ہی میں وزرات تعلیم نے کل ہند سروے برائے اعلیٰ تعلیم کے نام سے سروے کروایا ہے. اعلیٰ تعلیم سے متعلق اس تازہ ترین سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں مسلمان درج فہرست ذات و قبائل سے بھی بہت پیچھے ہیں. اس سروے کی تفصیلی رپورٹ معروف انگریزی اخبار دی ہندو نے شائع کی ہے. جو مسلمانوں کی تعلیم کے تعلق سے ایک مایوس کن تصویر پیش کرتی ہے. ایسے وقت میں جب کہ اعلیٰ تعلیم میں درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات میں بہتری آئی ہے. مسلم کمیونٹی میں 8 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے. یہ غیر معمولی کمی مسلم سماج کی صرف تعلیمی ہی نہیں بلکہ معاشی، سماجی و سیاسی بد حالی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے.
*سر سید احمد خان نے کہا تھا کہ (جب کوئی قوم فن اور علم سے عاری ہو جاتی ہے۔ تو یہ غربت کو دعوت دیتا ہے اور جب غربت آتی ہے تو ہزاروں جرائم کو جنم دیتی ہے۔)*
آج مسلم معاشرے میں جرائم کی بڑھتی تعداد اسی کم علمی کا نتیجہ ہے.
معروف انگریزی اخبار دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق مذہبی برادری اور جنس کے ذریعہ تعلیمی سطح پر 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، 42.7 فیصد کے ساتھ مسلمانوں میں ناخواندگی کی شرح سب سے زیادہ ہے. جب کہ جین 86.4 فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ خواندہ ہیں. ہندوؤں میں نا خواندگی کا تناسب 36.4 فیصد سکھوں میں 32.5 فیصد ، بدھ مت کے ماننے والوں میں 28.2 فیصد اور عیسائیوں میں یہ تناسب 25.6 فیصد ہے.
رپورٹ کے مطابق مسلمان بچوں میں تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے کا تناسب دیگر اقوام کے مقابلے زیادہ ہے۔ بعض طلبہ ساتویں سے آٹھویں تک ہی تعلیم جاری رکھتے ہیں اور میٹرک و پوسٹ میٹرک کے بعد تو گویا ترکِ تعلیم لازم ہے. مسلمانوں میں گریجویشن کا تناسب نہایت ہی کم ہے. اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لینے کے بجائے گھریلو حالات انھیں کمائی کے راستے پر جانے کو مجبور کردیتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ وہ امت جسے پڑھنے پڑھانے کی سب سے زیادہ ترغیب دی گئی وہ تعلیم کے میدان میں غفلت کے اعتبار سے ضرب المثل بنی ہوئی ہے. ملک ہندوستان میں یونیورسٹیوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے مگر مسلمانوں کی نمائندگی اس میں بھی صفر ہے.
ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا ایک بڑا سبب حکومت کی متعصبانہ فکر اور نا اہلی ہے. حالیہ متعصبانہ روش نے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دی ہے تو دوسری جانب بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کی کمر توڑ دی ہے. نیز تعلیمی اداروں میں رشوت خوری کا بازار گرم ہے، جو حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیونکہ یہی وہ خامیاں ہیں جن سے متأثر ہو کر ایک قوم یا ملت تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہے.
*تعلیمی میدان سے مسلمانوں کی دوری کا ایک بنیادی سبب اساتذۂ کرام کی لاپرواہی اور تساہلی بھی ہے۔ اگر سرکاری اسکولوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ سرکاری اداروں کے اساتذہ ہفتوں یا مہینوں میں ایک بار اداروں کا چکر لگاتے ہیں، جبکہ تنخواہ حاصل کرنے کے لیے پہلی تاریخ کو ہی بینک میں منڈلانے لگتے ہیں. یہ وہی اساتذہ ہیں جنہیں اپنی کوچنگ کلاس کی فکر زیادہ ہے. اور جو بچہ ان کے پاس کوچنگ کے لیے نا جائے وہ اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے. جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ معاشی طور پر کمزور بچے سرکاری اداروں کی ابتر حالت اور نجی اداروں کی مہنگی فیس سے تنگ آکر اپنی پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں.*
تعلیمی پسماندگی کا ایک بڑا سبب معاشی بدحالی اور اقتصادی بحران ہے. ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ وہ گھرانے جو دو وقت کی روٹیاں حاصل کرنے سے بھی قاصر ہیں ،وہ نجی اداروں کی مہنگی فیس کا بوجھ بھلا اپنے کاندھوں پر کیسے اٹھا سکتے ہیں. *موجودہ وقت میں ایک مزدور اوسطاً سالانہ دیڑھ سے دو لاکھ روپے کماتا ہے جبکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی صرف سالانہ فیس لاکھوں روپے ہے، ڈونیشن، ہاسٹل و دیگر خرچ علاحدہ. یہی وجہ ہے کہ پھر ان مزدوروں کے قابل، ہونہار، ذہین اور صلاحیت مند بچے اسکولوں کی جگہ کارخانوں میں مزدوری کررہے ہوتے ہیں یا پھر ٹھیلوں پر اپنے بڑوں کا ہاتھ بٹاتے، ہوٹل کی میز صاف کرتے یا جھوٹے برتن دھوتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ قوم کا وہ کا سرمایہ ہیں جنہیں معاشی بدحالی نے ایک مستحکم پلیٹ فارم اختیار کرنے کے بجائے ایک کمزور ڈوری کو پکڑنے پر مجبور کیاہوا ہے.*
تعلیمی پسماندگی کا ایک بڑا سبب تعلیم کے تئیں ہماری بے شعوری بھی ہے. مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو تعلیم کی اہمیت سے ناواقف ہیں. بلکہ کہتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر کچھ حاصل نہیں.
مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا ایک اہم سبب مسلمانوں کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کی زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی پالیسی رہی ہے. تعلیم تو اب ایک نفع خیز تجارت بن چکی ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اسٹیج پر تو قوم کو تعلیم کی طرف متوجہ کرتے ہیں، مگر ہمارے زیر انتظام تعلیم گاہیں محض تجارت کا ذریعہ ہیں. *ہم لاکھ اپنے آپ کو مخیر قوم و ملت، تعلیم دوست و سر سید، مفکر ملت اور دیگر القاب سے نواز کر پیٹھ تھپتھپاتے رہیں، اپنے منہ میاں مٹھو بنتے رہیں لیکن قوم کی یہ تعلیمی زبوں حالی اس وقت تک آپ کا منہ چڑاتے رہے گی جب تک اخلاص کے ساتھ قوم کی سر بلندی کے لیے کوششیں نہ کی جائیں ورنہ معاشرے کا حال تو یہی ہے کہ جو جتنا بڑا مافیا وہ اتنا ہی بڑا مسیحا.*